تعلیم ذہنی میلان کے مطابق حاصل کرنی چاہیے

 نعیم الرحمان شائق

دسویں جماعت کی ایک طالبہ ریاضی میں بہت اچھی تھی۔ ہمیشہ سب سے زیادہ نمبر لیتی تھی۔ استاد مشکل سے مشکل سوال بھی سمجھاتے تو فوراً سمجھ لیتی تھی۔ اس کا شوق تھا کہ وہ گیارھویں جماعت میں پری انجینیرنگ لے۔بعد میں ریاضی میں ماسٹرز کرکے پڑھائے۔ مگر اسے بتایا گیاکہ اس کو ریاضی نہیں پڑھنی چاہیے، کیوں کہ لڑکیوں کو میڈیکل کی طرف جانا چاہیے۔ وہاں ان کے لیے نوکریوں کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ جماعت کی باقی لڑکیوں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی میٹرک کے بعد پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ چوں کہ ذہنی میلان ریاضی کی طرف تھا۔ اس لیے میڈیکل کی تعلیم دل لگا کر حاصل نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گیارھویں جماعت میں  حیاتیات میں فیل ہوگئی۔ اب جس کو جس مضمون میں دل چسپی نہ ہوتو وہ فیل ہوگا ہی۔ بارھویں جماعت میں پھر حیاتیا ت کا پرچہ رہ گیا۔ مایوس ہو کرطالبہ  نے تعلیم کو خیر با د  کہہ دیا۔



یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: اطہر ہاشمی کے کالم کتابی صورت میں شائع کیے جائیں

 

عبد اللہ کی اردو بہت اچھی تھی۔وہ صرف اردو کی نصابی کتاب پر اکتفا نہیں کرتا تھا۔ بلکہ کتابیں اور اخباریں بھی زیرِ مطالعہ لاتا تھا۔ آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا، مگر غالب و اقبال کے سیکڑوں شعر اسے ازبر تھے۔ جب لکھتا تو کمال کر دیتا۔استانی صاحبہ حیران ہوتیں کہ بچہ ایسے ثقیل الفاظ لاتا کہاں سے ہے؟ عبداللہ کو شوق تھا کہ وہ ملک کا مایا ناز صحافی بنے۔ جب اس نے آٹھویں جماعت کا امتحان دے دیا تو  اپنے والدسے کہا کہ وہ جماعت نہم میں آرٹس پڑھنا چاہتا ہے۔ اس کے والد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب سمجھتےتھے کہ آرٹس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ دوسری طرف بچہ آٹھویں جماعت تک ریاضی اور جنرل سائنس میں ہمیشہ کم نمبر لاتا۔ عبد اللہ نےاصرار کیا ، مگر اس کی ایک نہ مانی گئی۔ بالآخر اس نے  والد کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ مگر ابھی دو مہینے ہی گزرے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو اسکول سے شکایات موصول ہونے لگیں کہ بچہ پڑھائی پربالکل توجہ نہیں دے رہا۔ اگر بورڈ کے امتحانات میں فیل ہو گیا تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ آخر وہ ہی ہوا ،جس کا خطرہ تھا۔ بورڈکےامتحانات میں سب سے کم نمبر عبد اللہ کےآئے۔ اگر عبد اللہ کو ذہنی میلان کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا تو وہ بہت آگے نکل جاتا۔ اس کی دل چسپی کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا۔ اس لیے پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگا ۔ ذہین ہوتے ہوئے بھی اس نے کم نمبر لیے۔

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:  غالب کے سدا بہار اشعار


شاہد کے گھر مذہبی ماحول تھا۔اس کے ابو ایک مشہور نجی کالج میں اسلامیات پڑھاتے تھے۔ اس کے بڑے بھائی عالم ِ دین تھے۔ میٹرک کرنے کےبعد شاہد  عالم ِ دین بننا چاہتا تھا۔ مگر اس کے ابو دوسرے بیٹے کو عالم نہیں، بلکہ وکیل بنانا چاہتے تھے۔ شاہد نے بہت اصرار کیا، مگراس کی  ایک نہ سنی گئی۔ بچے کو کالج میں داخل کر ادیا گیا۔ شاہد کادل کالج میں بالکل نہیں لگا۔ معاشیات اور مدنیات جیسے مضمون اسےایک  آنکھ نہ بھاتے تھے۔ گیارہویں اور بارہویں ،دونوںمیں وہ مذکورہ مضامین پاس نہ کر سکا۔ انٹر میں فیل ہونے کے بعد اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ آج کل وہ کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہے۔ جب وہ بارہویں جماعت پاس کرنے میں ناکام رہا  تو  اس کے والد نےاسے کپڑے کی دوکان بنا کر دےدی۔ وہ آج تک  سوچتا ہے کہ اگر وہ میٹرک کے بعد مدرسے میں داخلہ لے لیتا تو آج وہ ملک کا بہت بڑا عالم ِ دین ہوتا۔

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:  رومی کی باتیں


مذکورہ بالا تینوں کہانیاں فرضی ہیں، مگر ہمارے تعلیم نظام کی بہترین عکاس ہیں۔ ہمارے ہاں طلبہ کو ذہنی میلان کےمطابق تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی۔ وہ تعلیم، تعلیم ہی نہیں ، جو ذہنی میلان کے مطابق حاصل نہ کی جائے۔ اگر بچے کو اس کی دل چسپی کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کےمواقع فراہم کیے جائیں تو وہ بہت آگے نکل جائے گا۔ بہ صورت ِ دیگر بہت پیچھے رہ جائے گا۔ مایوس ہو کر تعلیم چھوڑ بھی سکتا ہے، جس کے ذمے دار وہ  لوگ ہوں گے، جنھوں نے اس ضمن میں اس کی رہ نمائی کی ہوگی۔

 

میرے خیال میں تعلیم شعبے کی اہمیت کو مد ِ نظر رکھ کر نہیں بلکہ اپنی دل چسپی کو مد ِ نظر رکھ کر حاصل کرنی چاہیے۔ اہمیت ہر شعبے کی ہے۔ جس طرح دنیا کو ڈاکٹر کی ضرورت ہو تی ہے، اسی طرح صحافی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح انجینیر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح معلم کی بھی ضرورت ہو تی ہے۔ جس طرح معیشت دان کی ضرورت ہو تی ہے، اسی طرح وکیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر یہ کہنا کہ فلاں شعبہ اہم ہے، فلاں نہیں  خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

 

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے