غالب کے سدا بہار اشعار

 


نعیم الرحمان شائق

)دیوان ِ غالب کی پی ڈی ایف فائل یعنی برقی کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔( 

اردو ادب میں غالب جیسی شہرت کسی کو نہیں ملی۔ غالب ہمیشہ غالب رہا۔ شاعری تو دیگر شاعروں نے بھی کی، لیکن غالب جیسی شاعری کسی نے نہیں کی۔ اس کا مقام سب سے بلند ہے۔ اس تک باقی شاعروں کی رسائی محال ہے۔ میری  فکر ِ دور رس بتاتی ہے کہ غالب ہر دور میں غالب رہےگااور اس جیسا شاعر کبھی نہیں آئے گا۔



 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: رومی کی باتیں

 

غالب کو ہی اتنی شہرت کیوں ملی؟غالب ہی کیوں مشہور ہوا؟ غالب ہی عظیم شاعر کیوں ہے؟ کیا غالب جیسی شاعری کوئی نہیں کر سکتا؟ بے شک غالب جیسی سخن آرائی کسی کے بس کی بات نہیں ۔ خود غالب کہتا ہے:

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز ِ بیاں اور

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: "دانشِ عرب و عجم"


غالب عظیم شاعر اس لیے ہے کہ اس کی نکتہ آفرینی غضب کی ہے۔ وہ ندرت ِ خیال کا بادشاہ ہے۔ وہ  میر کی طرح دور ِ پر آشوب کا نوحہ خواں نہیں ہے۔وہ اردو شاعری میں فلسفیانہ خیال آرائی کا موجد ہے۔وہ غم و اندوہ کی فضائیں پیدا کر کے قارئین کو رلاتا نہیں ہے۔ بلکہ طنز و مزاح سے کا م لے کر پڑھنے والوں کو ہنسانے کی حتی المقدور کوشش کرتا ہے۔ وہ سب سے منفرد اور یگانہ ہے۔ وہ شاعری میں تقلید ِ محض کا قائل نہیں۔ اس کے جی میں جو آتا ہے، لکھتا جا تا ہے۔ مگر جب لکھتا ہے تو کمال کر دیتا ہے۔

 

یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سبق آموز اقوال

 

مرزا غالب 27 دسمبر، 1797ء کو کالا محل آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ والد کا نام عبد اللہ بیگ تھا۔ بچپن میں یتیم ہو گئے تھے۔ ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی۔ لیکن آٹھ سال کے غالب کو چچا بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ اردو کے اس عظیم شاعر کے ساتھ ساری زندگی ستم ظریفی یہ رہی کہ ہمیشہ معاشی طور پر تنگ دست رہے۔ محض تیرہ سال کی عمر میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ ان کی شادی نواب احمد بخش  کے چھوٹے بھائی  مرزا الٰہی بخش معروف کی بیٹی امراء بیگم سے ہوئی۔  شادی کے بعد دہلی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جائے مسکن بنا دیا۔ ان کی  معاشی تنگ دستی کی اصل ابتدا شادی کے بعد ہوئی۔ وہ روز بروز مقروض ہوتے گئے۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور 50 روپے ماہ وار کے عوض خاندان ِ تیموری کے تاریخ لکھنے پر مامور کرد یا۔ 1857ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد غالب پر پھر معاشی تنگ دستی کا دور شروع ہوا، کیوں کہ ان کی سرکاری پنشن بند ہوگئی۔ غدر کے بعد غالب نے نواب یوسف علی خان  ، والیِ رام پور کو امداد کے لیےخط لکھا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اردو نظم و نثر کو مشکل پسندی کی گھاٹیوں سے نکال کر سہل پسندی کی ڈگر پر لینے والا یہ عظیم انسان 15 فروری 1869ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس دار ِ فانی سے کو چ کر گیا۔

 

آئیے ، غالب کی شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں:

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یوں ہےکہ حق ادا نہ ہوا

 

بے خودی بے سبب نہیں غالب

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

 

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

 

ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

 

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق

آدمی کوئی ہمارا دم ِ تحریر بھی تھا

 

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

 

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب

کیوں کسی کا گلہ کرےکوئی

 

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

 

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

 

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے

 

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

 

قطع کیجے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

 

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو

آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

 

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

 

کب وہ سنتا ہے کہانی میری

اور پھر وہ بھی زبانی میری

 

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

درد کی دوا پائی، دردِ لا دوا پایا

 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

 

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ ، اے خدا کیا ہے

 

نہ سنو گر برا کہے کوئی

نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

 

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی کوئی ہےکہ سب اچھا کہیں جسے؟

 

اس کی امت میں ہوں میں ، میرےرہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہہ کے غالب گنبدِ بے در کھلا

 

سادگی و پر کاری، بے خودی و ہشیاری

حسن کو تغافل میں جراءت آزما پایا

 

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

 

بوئے گل، نالہ ِ دل، دود ِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

 

ہم نےمانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن

خاک ہوجائیں گےہم تم کو خبر ہونے تک

 

یہ مسائل ِ تصوف ، یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا

 

خاک میں ناموس ِ پیمان ِ محبت مل گئی

اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے

 

بسکہ دشوار ہےہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

 

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق ِ دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

 

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد

عالم تمام حلقہ ِ دام ِ خیال ہے

 

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل ِ کرم دیکھتے ہیں

 

رونے سے اور عشق میں بے باک ہوگئے

دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہوگئے

 

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

 

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب ِ برہنگی

میں ورنہ ہر لباس میں ننگ ِ وجود تھا

 

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی

دونوں کو اک اد ا میں رضا مند کرگئی

 

دل کو نیاز ِ حسرت ِ دیدار کر چکے

دیکھا تو ہم میں طاقت ِ دیداربھی نہیں

 

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

اڑنےسے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

 

جانتا ہوں ثواب ِ طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

 

یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے

لوحِ جہاں پہ حرف ِ مکرر نہیں ہوں میں

 

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

آخر گناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں

 

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

 

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہو نے تک

 

غم ِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

 

ہوئی مدت کہ غالب مر گیاپر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے