جب فرقہ واریت یہاں تک پہنچ جائے۔۔۔۔

 

تحریر: نعیم الرحمان شائق

فیض احمد فیض نے کہا تھا:

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

دل پہ گزری ہوئی کورقم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، پرانےزخم ہرے ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے ماضی میں کھوجاتا ہے۔ مگر:

یاد ِ ماضی عذاب ہےیارب!

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

میں تمہید کو طول دے کر آپ کی بوریت کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ آج کی میری تحریر دراصل میری یادوں کے ایلبم کی ایک تصویر ہے، جسے میں لفظی جامہ پہنا کر آپ کی نذر کر رہا ہوں۔


 



یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:     میری شاعری


ایک مرتبہ کراچی کے ایک معروف اسکول میں ٹیچنگ کی غرض سے جانا ہوا۔ انٹرویو اور ڈیمو کلاسز کےبعد میں منتخب ہوگیا۔ آخر میں میڈم نے مجھ سے کہا کہ اب آپ کو ہمارے" بڑے سر "کے ہاں جانا ہوگا۔ اگر وہ آپ کو پاس کردیتے ہیں تو کل سے پڑھانے کے لیے آجائیں۔ میں نے ہامی بھر لی۔

بڑے سر اور میرے درمیان جو مکالمہ ہوا، وہ یہ تھا:

وہ: ) میری تعلیمی اسناد دیکھتے ہوئے (آپ نے حفظ کہاں سے کیا؟

میں : اپنے محلےکے ایک مدرسے سے

وہ: یہ مدرسہ کس مسلک کا تھا؟

میں: مجھےنہیں معلوم

وہ: ) کچھ سوچتے ہوئے (سورہ فاتحہ پڑھ کرسنائیں۔

میں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی۔ انھوں نے سورہ فاتحہ سننے کے بعد مجھے مضحکہ خیز نظروں سے دیکھا۔پھر کہا: اب میں سمجھ گیا کہ آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔


یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے:  نو عادتیں جن کو چھوڑ دینا چاہیے


میں: میرا کوئی فرقہ نہیں ۔ میں فرقہ واریت کو نہیں مانتا۔ قرآن ہمیں لاتفرقو کادرس دیتا ہے۔

وہ: آخر آپ اپنا فرقہ کیوں چھپا رہے ہیں۔ یہ دیکھیے۔ ) انھوں نے ایک استانی کی طرف اشارہ کر کے کہا( یہ ہمارے اسکول میں ٹیچر ہیں۔ یہ آغا خانی ہیں۔ یہ جب آئیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ن ہیں۔ انھوں نے صاف صاف بتا دیاکہ آغا خانی ہیں۔ ہم نے ان کو رکھ دیا۔ آپ کوہم اسلامیات کے مضمون کے لیے رکھ رہے ہیں۔ آپ کو ضرور بتانا چاہیے کہ آپ کا فرقہ کون سا ہے۔ ویسے جب آپ نے سورہ فاتحہ پڑھی تو میں سمجھ گیا کہ آپ ہمارے مخالف فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

میں: جب میرا کوئی فرقہ ہے ہی نہیں تو میں کیوں کر کسی مخصوص مسلک کی طرف اشارہ کروں۔ میں صرف مسلمان ہوں۔ قرآن نے مجھے "مسلم" نام دیا ہے۔ مجھے یہی نام جچتا ہے۔سورہ انعام کی آیت 159 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "بے شک جنھوں نے اپنے دین کے ٹکڑےٹکڑےکر دیے اور خودمختلف گروہ بن گئے۔ اے حبیب! آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا معاملہ صرف اللہ کےحوالے ہے۔ پھر وہ انھیں بتا دے گا، جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ "جب قرآن ہمیں گروہ بندی سے منع کر رہا ہے تو ہم اس کے حصے دار کیوں بنیں؟

وہ: اوہو! اچھا ! اچھا! ) پھر کچھ دیر سوچ کر( مولانا مودودی کو جانتے ہیں آپ؟

میں: جی


یہ بھی زیرِ مطالعہ لائیے: خود کشی کرنے والے اردو شعرا


وہ: مودودی صاحب کیسے شخص تھے؟

میں: مودودی صاحب کا سب سے بڑا کا رنامہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو دین بے زار لوگوں تک منتقل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔رب تعالیٰ نے انھیں لکھنےکی وہ صلاحیت عطا کی تھی، جو شایدہی کسی اور عالم کےپاس ہو ۔ ان کے قلم میں جادو تھا۔ لکھتے تو دل چیر کے رکھ دیتے۔ ان کی اسلامی تحریک سےکالجوں اور یونی ورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کافی حد تک متاثر ہوئے۔ یوں دین ِ اسلام مدرسوں ، خانقاہوں ، درس گاہوں، مسجدوں  سے ہوتا ہوا کالجوں، یونی ورسٹیوں تک پہنچ گیا۔

مگر۔۔۔۔مگر۔۔۔ان کی خدمات اگرچہ بہت زیادہ ہیں۔مگر کہیں کہیں انھوں نے حدِ اعتدال پار کردی۔ انھوں نے جو کچھ "خلافت و ملوکیت " میں لکھا، اچھا نہیں لکھا۔ اعتدال کی حد پار کردی۔ اور امت کو تکلیف پہنچائی ۔ میں ان کی خدمات کو ضرور سراہتا ہوں، مگر وہ میرے آئیڈیل نہیں ہیں۔

وہ: اچھا ، ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

میں: ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کےعظیم ہیرو ہیں۔ وہ اسلام کے عظیم مبلغ ہیں۔ ان کی وجہ سے کئی لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ہورہےہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے اقبال نے کہا تھا:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہےچمن میں دیدہ ور پیدا

بہت سارے لوگ ان کو پسند نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص فرقے کےمبلغ ہیں۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔وہ صحیح اور حقیقی اسلام کی نمائندگی ایسے پلیٹ فارمز پر کرتے ہیں، جہاں ہمارے علما کی رسائی محال ہے۔ میں نے ان کوآکسفورڈ یونی ورسٹی میں بھی اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا۔ میں ایسے شخص کو اپنا ہیر ونہ کہوں تو اور کیا کہوں۔ ان کے بہت سے نظریا ت سے اختلا ف کیا جا سکتا ہے۔مگر ان کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا ۔

وہ: آپ کے خیال میں جو لوگ مزاروں میں جا کر پیر وں سے مانگتے ہیں، صحیح کرتے ہیں یا غلط؟

میں : اسلام کی رو سے وسیلہ جائز ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور ِ حکومت میں  آپ ﷺ کے چچا  حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وسیلےسے  بارش کی دعا مانگی تو اس کا نتیجہ نکل آیا اور بارش شروع ہوگئی۔ اولیاء اللہ، رب العالمین کےبرگزیدہ بندے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوتے ہیں۔ ان کے وسیلےسے دعا مانگی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کوئی وسیلے کا قائل نہیں ہے، تو میں اس کی رائےنہیں مانوں گا۔مگر اسے دائرہِ اسلام سے خارج نہیں سمجھوں گا۔ فروعی مسائل میں اختلافات ہوتےرہتے ہیں۔

وہ: آپ نماز کس مسلک کی مسجد میں پڑھتے ہیں؟

میں: جو مسجد قریب ہوتی ہے، پڑھ لیتا ہوں۔

بڑے سر کافی دیر تک سر جھکائے بیٹھے رہے۔پھر انھوں نےحکم صادر فرمایا:

آپ بہت ذہین  ہیں اور قابل ہیں۔ آپ کا مطالعہ بھی خاصا وسیع ہے۔لیکن اس کے باوجود میں آپ کو اپنےاسکول میں نہیں رکھ سکتا۔

میں: مگر کیوں؟

وہ: آپ کی باتوں سےلگتا ہےکہ آپ ہمارے طلبہ کے لیے "خطرناک " ثابت ہوں گے۔ہم اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔(انھوں نے "اس" کی جگہ اپنے فرقے کا نام لیا۔فتنہ ِ فسادِ خلق کے باعث میں اس فرقے کا نام نہیں لکھ رہا۔)۔۔۔ ہاں! ایک شرط پر میں آپ رکھ سکتا ہوں۔

میں: وہ کیا شرط ہے؟

وہ: اگر آپ ہمارے پیر صاحب کے ہاتھ پربیعت کرکے آجائیں تو ہم آپ کو بہترین پوسٹ دیں گے۔

میں: اور اگر میں بیعت نہ کروں تو؟

وہ: پھرآپ کےلیےہمارے اسکول میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

میں نے 'حضرت بڑے سر 'کو سلام کیا اور چل دیا۔

اس دن مجھ پر امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا ایک بڑا راز منکشف ہوگیا، اور وہ ہےفرقہ واریت۔

منفعت ایک ہے ، اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم ِ پاک بھی ،اللہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتےجو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں، اورکہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے