بارہ ربیع الاول
میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی
ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے
اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا
ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر
اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے
سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے
جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق
دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور
محبت کو عام کر دیتا ہوں
.
اپنی آمد پر اس قدر جوش و خروش دیکھ کر
مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ امتیوں کی اپنے پیارے رسول ﷺ سے اس قدر والہانہ محبت دیکھ
کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے ،اب سب کچھ بدل جائے گا ۔ ہر
ایک اسوہ ِ رسول ِ اکرم ﷺ کی پیروی کرے گا ۔ جس کی وجہ سے امت کا مستقبل سنور جائے
گا ۔ امت کی حالت میں بہتری آجائے گی ۔ اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہوگی ۔ آقا علیہ
السلام نے امت کو درس ِ اخوت دیا تھا ۔ امت اپنے مہربان رسول ﷺ کے اس درس پر عمل
کرے گی ۔ رسول ِ مہربان سراپا اخلاق تھے ۔ آپ ﷺ کے اخلاق سب سے اعلا تھے ۔ امت بھی
اپنے اخلاق اپنے رسول ِ اکرم ﷺ کے اخلاق کی طرح بنانے کی کوشش کرے گی ۔ آقا علیہ
السلام مہر بان تھے ۔ عفوو درگزر سے کام لیتےتھے ۔ اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو معاف
کر دیا تھا ۔ امت میں بھی یہ صفت ِ رحمت پیدا ہو جائے گی ۔ کیوں کہ جس طرح
امت میری آمد پر رسول ِ اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت کا اظہار کر رہی ہے ، اس سے تو یہی
لگتا ہے ۔ اس عمل سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ امت یک سر بدل جائے گی ۔ اب غربت
نہیں ہوگی ۔ امیر ، غریب کا خیال رکھیں گے ۔ مہنگائی نہیں ہوگی ۔ لوٹ مار
نہیں ہوگی ۔ ناپ تول میں کمی نہیں کی جائے گی ۔ سڑا ہوا مال ، مہنگے داموں بیچنے
کی کوشش نہیں کی جائے گی ۔ لوگ دکھ درد بانٹیں گے ۔ گویا سب کچھ بدل جائے گا ۔
میری آمد کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانان ِ پاکستان ایک مثالی معاشرہ
تشکیل دیں گے ۔ ایک ایسا معاشرہ ، جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملے گی ۔
مگر میری تمام امیدوں پر اس وقت پانی پھر
جاتا ہے ، جب میں دیکھتا ہوں کہ کچھ بھی نہیں بدلتا ۔ سب کچھ جوں کا توں رہتا ہے ۔
وہی مسئلے ، وہی الجھنیں ، وہی مشکلیں ۔ نہ نفرت ختم ہوتی ہے ، نہ عداوت تھمتی ہے
۔ نہ عفوو درگزر کے سوتے پھوٹتے ہیں ، نہ دشمن کو معاف کرنے کی سنت کا اجرا ہوتا
ہے ۔آقا علیہ السلام کے درس ِ اخوت پر بھی کوئی عمل نہیں کرتا ۔ فرقہ وارانہ تفاوت
جوں کا توں برقرار رہتا ہے ۔ غریب غریب ہی رہتا ہے ۔ امیر اس کا خیال نہیں
رکھتا ۔ مہنگائی کم نہیں ہوتی ۔ ناپ تول میں کمی کی عادت جاری رہتی ہے ۔ گویا کچھ
نہیں بدلتا ۔ باید و شاید ہی کوئی ہو ، میری آمد جس کی زندگی پر کوئی مثبت
اثر مرتب کرتی ہو ۔مجموعی سطح پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ درحقیقیت امت کے
دن اس وقت پھریں گے ، جب مجموعی سطح پر کوئی تبدیلی وقع ہوگی ۔ بہ صورت ِ دیگر کچھ
نہیں بدلے گا ۔
میرا حقیقی پیغام یہ ہے کہ امت اپنے پیارے
رسول ﷺ کے نقش ِ قدم پر چلے ۔ ہر عمل میں ، ہر فعل میں آپ ﷺ کی پیروی کرے ۔ امت کی
کام یابی اور کامرانی اسی میں مضمر ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی عمل نہیں ، جس سے
امت کو کام یابی اور کامرانی حاصل ہو ۔ کاش !! رسول ِ اکرم ﷺ کی امت اپنے پیارے
آقا علیہ السلام کی سنتوں پر عمل کرتی !!
تحریر: نعیم الرحمان شائق
تبصرے