لیاری والے
یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے ۔
میں اپنی تحریروں میں لیاری کے بارے میں
لکھتا رہتا ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ لیاری کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنے کی
کوشش کر رہے ہیں ۔ لیاری کے لوگوں میں قابلیت کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یہاں کے لوگوں
میں کھیل سے لے کر تعلیم تک کے ہر شعبے میں قابلیتیں اور صلاحیتیں بدرجہ ِ اتم
موجود ہیں ۔ مگر ان کو ابھارنے والا اور ان صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے
اور ان کے قدر دان بہت کم ملتے ہیں ۔ عام طور پر اب بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ
لیاری کے لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں ۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے ۔ لیاری میں بے نظیر
بھٹوشہید یو نی ورسٹی کے قیام نے تعلیم پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔کئی کالج اس یو
نی ورسٹی سے ملحق ہیں ۔ بے نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی کے قیام کی وجہ سے لیار ی کے
نو جوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اب انھیں اعلیٰ تعلیم لیاری میں ہی مل جاتی
ہے ۔اس کے باوجو د بھی لیاری کے لوگوں کو جاہل اور ان پڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ میرے
خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ جو لوگ لیاری کو پسند نہیں کرتے ، انھیں چاہیے کہ
وہ ایک بار یہاں ضرو ر آئیں ۔ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ یہ علاقہ اور یہاں کے مکین
کیسے لوگ ہیں ۔ یہ علاقہ کھیلوں کے حوالے سے بھی کافی ذرخیز رہا ہے ۔ یہ علاقہ اب
بھی ماضی کے عظیم فٹ بالروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ قومی سطح کے بہت سے مشہور فٹ بالر
لیاری میں رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ باکسنگ کا کھیل بھی یہاں عام ہے ۔ معروف باکسر
حسین شاہ کا تعلق لیاری سے ہے ۔ تعلیمی میدان میں پروفیسر علی محمد شاہین کسی
تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کا تعلق بھی لیا ری سے تھا ۔ اردو کے مشہور شاعر
ن۔م۔دانش ، جو ان دنوں امریکا میں ہیں ، کا تعلق بھی لیاری سے ہے ۔ پروفیسر صبا
دشتیاری بھی لیاری کے تھے ۔ ان کے علاوہ اور بھی ایسے کئی لوگ ہیں ، جو لیاری کی
شان ہیں ۔ جب بھی لیاری کی تاریخ لکھی جائے گی ، ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا
جائے گا ۔
تقریبا ایک مہینا قبل لاہور کی فاسٹ یونی ورسٹی
میں گرافکس ڈزائننگ کا ایک مقابلہ منعقد ہوا تھا ۔ اس مقابلے میں پورے پاکستان سے
طلباء نے شرکت کی تھی ۔ یعنی یہ ایک قومی مقابلہ تھا ۔ اتنے سخت مقابلے میں بے
نظیر بھٹو شہید یونی ورسٹی کے دو طلبہ عبدا لواحد بلوچ اور مبشر بازی لے گئے ۔ ان
دونوں طلبہ کا تعلق لیا ری سے ہے ۔ انھوں نے لیاری میں ہی تعلیم حاصل کی ۔ اب بھی
وہ لیاری میں ہی اعلیٰ تعلم حاصل کر رہے ہیں ۔ یہ مقابلہ جیت کر انھوں نے ثابت کر
دیا کہ لیاری والے بھی کسی سے کم نہیں ۔ لیاری والوں میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے ۔ مگر
کوئی ان قابلیتوں اور صلاحیتوں کو ابھارنے والا تو ہو ۔ عبدالواحد بلوچ نے مجھے
بتا یا کہ کہ 2014ء میں محمد علی جناح یو نی ورسٹی میں ویب ڈویلپیمنٹ کا مقابلہ
منعقد ہوا تھا ۔ اس مقابلے میں بھی انھوں نے اور ان کے دوست فرحان نے فتح کے جھنڈے
گاڑ دیے تھے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکام ِ بالا لیاری
پر توجہ دیں ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے پورا پاکستان
مستفید ہو سکے ۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق
تبصرے