اور اس بار میرا بہاولپور۔۔۔

اور اس بار میرا بہاولپور بدقسمت نصیب کی نذر ہو گیا ۔ ڈیرھ سو سے زائد لوگ زندہ جل گئے ۔ سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ۔ واقعہ چھبیس جون کا ہے ۔ یعنی عید سے ایک دن پہلے کا۔جب پاکستان کے عوام عید کے چاند کا انتظار کر رہے تھے اور خوش تھے کہ کل عید ہوگی ، کیوں کہ سعودی عرب میں عید تھی ۔جب سعودی عرب میں عید ہوتی ہے تو دوسرے دن ہماری عید ہوتی ہے ۔ لیکن اس سانحے کے بعد ہماری خوشیوں پر بڑی حد تک اوس پڑ گئی ۔ ان حرماں نصیبوں نے کس طرح عید منائی ہوگی ، جن کے عزیز واقارب زندہ جل گئے !




          ہر ہفتے کئی مضامین میرے ذہن میں رینگتے ہیں ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ مثبت موضوعات پر لکھوں ۔ کوئی معلوماتی مضمون چنوں ۔ کچھ مزاحیہ باتیں کروں ، تاکہ قارئین لطف اندوز ہو سکیں ۔ کسی سماجی اور معاشرتی برائی کی نشاندہی کروں ، لیکن مثبت انداز سے ۔ بغیر طنز و تنقید کے نشتر چلائے ۔ اپنے الفاظ کے ذریعے زندگی گزارنے کے طریقے اور سلیقے سکھا سکوں ۔ صحت و صفائی پر لکھوں ۔ تعلیم پر لکھوں ۔۔۔۔۔ اور نہ جانے کیا کیا خیالات ذہن میں رینگتے ہیں ۔مگر اس طرح کے واقعات سارے مثبت موضوعات ذہن کے صفحے سے مٹا دیتے ہیں ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر لکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ آج یکم جولائی ہے ۔یہ واقعہ چھبیس جون کو پیش آیا ۔ اب تک اس سانحے پر لاکھوں الفاظ لکھے جا چکے ہوں گے ۔ میرا لکھنا بہ ظاہر فضول ہے ۔ لیکن کیا کروں ۔ اس واقعے پر کچھ لکھے بغیر میں آگے بڑھ ہی نہیں سکتا ۔

          تیل سے بھرا ہوا ٹرک کراچی سے لاہور جار ہا تھا ۔ احمد پور شرقیہ سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر تیز رفتاری کے باعث پھسل گیا  اور سڑک سے نیچے کھیتوں میں گر گیا ۔ جس سے تیل رسنا شروع ہوگیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کھیت کا یہ حصہ تیل کا تالاب بن گیا ۔ جب تک پولیس پہنچتی ، بچے ، بوڑھے ، جوان ۔۔۔ سب کے سب تیل پر کود پڑے ۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہمہ اقسام کے برتن تیل سے بھر نے لگے ۔ پولیس کے سمجھانے کے باوجود یہ لوگ اس کام میں منہمک رہے ۔

          یہ اس سانحے کی پہلی کڑی یا ابتدائیہ ہے ۔ بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ۔ جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص سگریٹ پی کر پھینکتا ہے یا ماچس کی تیلی پھینکتا ہے ۔ شاید یہی جلا ہوا سگریٹ یا ماچس کی تیلی اس قیامت خیز سانحے کا سبب بنتی ہے ۔بعد کی اخباری رپورٹیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اتنے بڑے ٹرک کا ڈرائیور ماہر اور تجربہ کار نہیں تھا ۔



بہر حال ۔۔۔ جو کچھ بھی کہا جائے ، جتنے بھی تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جائیں ، قصور عوام کا نظر آتا ہے ۔ ایک عام شخص بھی جانتا ہے کہ آئل بہت خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے اور آئل کی آگ بھی شدید ہوتی ہے ۔ پھر کیا ضرورت تھی تیل جمع کرنے کی ۔ کیا تیل جان سے بھی زیادہ قیمتی تھا؟ اگر نہیں تھا تو ایسا کیوں کیا گیا ۔محض چند روپوں کی خاطر کئی گھر اجڑ گئے ۔ ہمارے ملک میں غربت کا عالم (یا کسی حد تک لالچ کاعالم)یہ ہے کہ بہاولپور سانحے کے بعد حیدرآباد میں ایک ٹرک سے تیل رسنے لگا تو لوگ تیل پر ٹوٹ پڑے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ عوام کو کون سمجھا سکتا ہے؟

میں نے ان بدنصیب لوگوں ناقابل شناخت لاشیں دیکھیں ، جو تیل میں جل کر پک گئے تھے ۔ ایسا لگتا تھا ، جیسے جلے ہوئے درختوں کے تنے پڑے ہوں ! ان کی شناخت مشکل ہی نہیں ، محال تھی ۔ اس لیے ایک سو پچیس لوگوں کی اجتماعی نماز ِ جنازہ ادا کر کے امانت کے طور پر تدفین کی گئی۔ اس سے پہلے میں نے اس طرح کی خوف ناک تصویریں سن دوہزار تیرہ ، چودہ میں روہنگیا مسلمانوں کی دیکھی تھیں ، جنھیں وہاں کے باسیوں نے محض مسلمان ہونے کی پاداش میں بے رحمی سے جلا دیا تھا ۔

اس سانحے کے پس پردہ محرکات کیا ہیں ، اس پر ضرور بالضرور تحقیقات ہونی چاہئیں ۔ بہ ظاہر حادثاتی طور پر رونما ہونے والا یہ سانحہ کسی کی  شرارت بھی ہو سکتا ہے ۔ تحقیقات جاری ہیں ۔ دیکھتے ہیں کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق


ذمرہ:  معاشرتی




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے