اشاعتیں

معاشرتی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کراچی میں پانی کا مسئلہ

ان دنوں شہر ِ قائد کے چند علاقوں میں پانی کا شدید بحران ہے ۔ اس کی وجہ پمپنگ اسٹیشنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔ جمعرات کو خبرآئی کہ شہر میں پانی کی قلت 348 ملین گیلن ہوگئی ۔ جس سے قلت ِ آب کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ادھر وزیر ِ اطلاعات و بلدیا ت کے الیکٹرک پر سخت بر ہم ہیں ۔ انھوں نے کے الیکٹرک کی جانب سے عدالت کے واضح احکامات کے با وجود واٹر پمپنگ پر گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کو کراچی کا امن و امان خراب کرنے کے مساوی قرار دیا ۔ اس طرح انھوں نے سندھ اسمبلی میں بھی کے الیکٹرک کو کھر ی کھر ی سنائیں ۔ انھوں نے کہا کہ اگر کے الیکٹرک کے ذمہ داروں نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو انھیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں میں ڈالا جائے گا ۔ 

ہیں تلخ بہت بندہ ِ مزدور کے اوقات

یکم  مئی کو بہت گر می تھی ۔ درجہ ِ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ سے متجاوز تھا ۔یہ مزدوروں اور محنت کشوں کا عالمی دن تھا ۔ مگر اس دن بھی ہم نے دیکھا کہ مزدور اور محنت کش طبقہ تو  اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا ، لیکن امیر  طبقہ گھروں میں اے سی اور پنکھوں کے مزے لوٹ رہا تھا ۔ بازار حسب ِ معمول کھلے تھے ۔سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے ۔ گلی کے نکڑ پر شدید گرمی سے بے نیاز بچوں کی چیزیں بیچنے والا محنت کش اپنے کام میں جتا ہوا تھا ۔ کھدائی کا کام کرنے والا مزدور پسینے میں شرابور تھا ، مگر  شدید گرمی میں بھی اپنا کا م جاری رکھے ہوئے تھا ۔عورتیں ،جو گھروں میں سلائی اور کڑھائی وغیرہ کا کام کرتی ہیں ، ان کی بھی کوئی چھٹی نہیں تھی ۔سرکار نےتو چھٹی دے رکھی تھی، مگر کئی نجی ادارے کھلے ہوئے تھے اور وہاں کام کرنے والے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے ۔

الم ناک سانحہ

موضوع ذرا پرانا ہے ۔ مگر ایسا ہے کہ اغماض برتنے  کو جی نہیں چاہتا ۔ یہ موضوع دیگر موضوعات سے زیادہ   ا نہیں ہے۔کیوں کہ موضوع جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے ، اہمیت کھوتا جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی لکھنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ پیر سے لے کر ہفتے تک ذہن میں بہت سے موضوعات کلبلاتے رہے ۔ میرے سامنے یمن کا مو ضوع تھا ۔ عرب امارات کے وزیر کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیان بازی اور پھر اس پر ہمارے وزیر ِ داخلہ کے سخت رد َ عمل کا موضوع تھا ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور  ڈاکٹر  عبد العزیز بن عبد اللہ العمار کی مثبت باتوں کا موضوع تھا ۔ جنھوں نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بہترین انداز سے یمن کی کشیدگی کے ضمن میں سعودی عرب کے  موقف کا اظہار کیا ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور نے جس طرح مثبت انداز میں اپنے موقف کا اظہار کیا ، اس سے اچھا کوئی مثبت موضوع تھا ہی نہیں ۔

پاکستانی ٹیلنٹ

یہ خبر اگرچہ تھوڑی سی پرانی ہے ، لیکن دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے بارہ فروری 2015کو اپنی ویب سائٹ پر پاکستانی محققین کے ایک کام یاب تجربےکے بارے میں خبر شائع کی تھی ۔ میں اس خبر کی چند چیدہ چیدہ باتیں یہاں تحریر کرتا ہوں ۔اس خبر کے مطابق: پاکستانی محققین نے گھریلو کوڑے کرکٹ میں شامل پلاسٹک کو انتہائی جدید طریقے سے ری سائیکل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔پاکستان میں اس طریقہ کار سے متعلق تجربات حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم اور معدنیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحت علی کی زیر نگرانی انجام دیے گئے ہیں۔کراچی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈکٹر رضا شاہ بتاتے ہیں کہ پلاسٹک ری سائکلنگ کا یہ طریقہ نہایت ماحول دوست ہے، "یہ ایک ایسا پراسس ہے جس میں پلاسٹک کا کوڑا فیول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں خاص طور سے کراچی کے جو بڑے مسائل ہیں ان میں سے ایک آلودگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پلاسٹک کا کوڑا ہے جس میں پولیتھن بیگ کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو ماحول میں شامل ہو کر تلف نہیں ہوت

اردو کا مسئلہ

پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق:  (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔  (2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔ (3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات  تجویز کر سکے گی ۔ 

دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں ہو گیا ۔ پھر ایک بار معصوم انسانیت کا قتل ِ عام کیا گیا ۔ نماز ِ جمعہ کا احترام بھی ملحوظ نہ رکھا گیا ۔ اب بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اُ ن کا تعلق مذہب سے ہے تو خام خیالی ہے ۔ابھی تک پشاور کا سانحہ ذہن سے محو نہیں ہوا ۔ ایک اور سانحے نے مغموم کر دیا ۔ اس دفعہ اُ ن کا نشانہ سندھ دھرتی کا ایک گم نام علاقہ بنا ۔ علاقے کا نام لکھی در ہے اور ضلع شکار پور ۔ امام صاحب نے ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،خطبہ ِ جمعہ ختم کیا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکا ہوا  اور امام بارگا ہ کی چھت زمین بوس ہو گئی ۔

سانحہ ِ پشاور۔۔۔مذمتیں اور اسلامی تعلیمات

سانحہ ِ پشاور نے سب کو سوگ وار کردیا ہے ۔ دیسی بدیسی ، ہر ایک غم گین ہو گیا ۔ سب نے مذمت کی ۔ سب نے افسوس کیا۔ باراک اوباما نے کہا کہ ان کی دعائیں بچوں کے خاندانوں کے لیے ہیں ۔ پریشانی کے اس لمحے میں امریکا پاکستانی قوم کے ساتھ ہے ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی حکومت کی حمایت کرتے ہیں ۔ تاکہ سارے خطے میں امن و استحکام کا قیام ممکن ہو سکے ۔انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ پشاور میں اسکول پر حملے نے ان کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بچوں کا قتل اور انھیں یر غمال بنانے کا فعل ایسی بربریت ہے کہ اس کی مثال ممکن نہیں ۔

پاکستان کی سیاسی صورت حال

ان دنوں وطن ِ عزیز کی سیاسی صورت حال نا گفتہ بہ ہے ۔ اسی سیاسی صورت حال کے باعث چینی صدر کا دورہ ِ پاکستان ملتوی ہوا ہے ۔ حکومت کے مطابق چینی صدر کے نہ آنے سے پاکستان کو 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ کیوں کہ چینی صدر نے 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں پر دست خط کرنے تھے ۔ بی بی سی کے مطابق : " گذشتہ ماہ ہی وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ چین نے پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے آئندہ چار برس کے دوران ملک میں دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ کے بجلی گھروں کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ "