اشاعتیں

تعلیم اور ہم

کسی بھی قوم میں تعلیم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اقوام ِمغرب کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ تعلیم ہے ۔ تعلیم شعور و آگہی بخشتی ہے ۔ یہ تعلیم ہی ہے ، جس کے بل بوتے پر آج انسان کی رسائی چاند تک ہو چکی ہے ۔انسان اپنے سیارے یعنی زمین کو تو مسخر کر ہی چکا ہے ، لیکن اب دوسرے سیاروں پر بھی کمندیں ڈالنے کو ہے ۔ میں تعلیم اور علم کے مابین فرق کا قائل نہیں ہوں ۔  دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتا ہوں ۔تعلیم یا علم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ، جو اسے ضرور ملنا چاہیے ۔ 

امریکا اور مسلم دنیا

امریکی صدر نے دنیا کو باور کرایا کہ مغرب اور اسلام میں جنگ کو تائثر سفید جھوٹ ہے ۔ دنیا پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے ۔ بین الاقوامی برادری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔ جہادی یہ غلط تائثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے ۔ مگر یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراء ہے ۔ بغیر کسی مذہبی تفریق کے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تائثر کو مسترد کریں ۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ، ہم ان عناصر سے لڑ رہے ہیں ، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے ۔ 

دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

5 فروری آیا اور چلا گیا ۔یہ ہر سال آتا ہے ۔ اہلیان ِ پاکستان کو سوگ وار کرتا ہے ۔ پھر چلا جاتا ہے ۔ اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کشمیری بھائیوں سے اظہار ِ یک جہتی کے لیے  جلوس نکلتے ہیں ۔ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بازی ہوتی ہے ۔ ایوان ِ بالا و زیریں میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ۔ سیاست دان ایوانوں میں ، عوام سڑکوں پر جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ زبان ِ قال و حال سے کہا جاتا ہے : "ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں ۔"جارحانہ بیان بازی ہوتی ہے ۔یہ دن 1990ء سے منایا جا رہا ہے ۔ میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا، اس دن کا مشاہدہ کر رہا ہوں ۔ یہی کچھ دیکھ رہا ہوں ، جو اوپر بیان کیا ۔ 

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں

پھر ایک سانحہ ِ خوں چکاں ہو گیا ۔ پھر ایک بار معصوم انسانیت کا قتل ِ عام کیا گیا ۔ نماز ِ جمعہ کا احترام بھی ملحوظ نہ رکھا گیا ۔ اب بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اُ ن کا تعلق مذہب سے ہے تو خام خیالی ہے ۔ابھی تک پشاور کا سانحہ ذہن سے محو نہیں ہوا ۔ ایک اور سانحے نے مغموم کر دیا ۔ اس دفعہ اُ ن کا نشانہ سندھ دھرتی کا ایک گم نام علاقہ بنا ۔ علاقے کا نام لکھی در ہے اور ضلع شکار پور ۔ امام صاحب نے ، جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،خطبہ ِ جمعہ ختم کیا ہی تھا کہ ایک زور دار دھماکا ہوا  اور امام بارگا ہ کی چھت زمین بوس ہو گئی ۔

شاہ عبد اللہ بھی رخصت ہوئے

یہ خبر پوری مسلم دنیا میں   غم اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ خادم ِ حرمین الشریفین اور سعودی عرب کے فرماں روا شاہ عبد اللہ 90 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد جمعرات اور جمعۃ المبارک کی درمیانی شب خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔وہ ایک عرصے سے پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھے ۔پھیپھڑوں کے انفیکشن کے باعث انھیں پچھلے کئی دنوں سےمصنوعی طریقے سے سانس دیا جا رہا تھا ۔ان کی نماز ِ جنازہ پرنس ترکی بن عبد اللہ جامع مسجد میں ادا کی گئی۔جس میں کئی مسلم ممالک کی اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی ۔پاکستان کے وزیر ِ اعظم اور ترک صدر رجب طیب  اردوان نے بھی نماز ِ جنازہ میں شرکت کی ۔سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی شاہ کی غائبانہ نماز ِ جنازہ ادا کی گئی ۔دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم رہنماؤں نے شاہ کی وفات پر گہرے رنج اور افسوس کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ اسرائیلی سابق صدر شمعون پیریز بھی کہہ اٹھے کہ شاہ عبد اللہ کی موت مشرق ِ وسطی ٰ کے امن کے لیے حقیقی نقصان ہے ، جس کی تلافی نا ممکن ہے ۔

چارلی ہیبڈو کی نئی جسارت

فرانسیسی مزاحیہ جریدے کا عملہ اتنا بڑا نقصان اٹھانے کے باوجود باز نہ آیا ۔ ایک بار پھر اس نے گستاخانہ خاکے شائع کر دیے ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ گستاخانہ خاکوں پر مبنی یہ جریدہ 7 لاکھ کی تعداد میں شائع ہوا ہے ۔  اس کے ساتھ ساتھ اس جریدے کے عملے نے 50 لاکھ کاپیاں شائع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ عام جریدہ اگرچہ صرف فرانسیسی زبان میں ہوتا تھا ، لیکن گستاخانہ خاکوں پر مشتمل یہ جریدہ انگریزی اور عربی سمیت 16 زبانوں میں شائع کیا جائے گا ، جو دنیا بھر کے 25 ممالک میں فروخت ہوگا ۔