اشاعتیں

امامِ کعبہ کے نصائح

24 مارچ 2015 بروز جمعۃ المبارک کو امام ِ کعبہ شیخ خالد الغامدی نے بحریہ ٹاؤن لاہور کی جامع مسجد میں خطبہ ِ جمعہ دیا ۔ انھوں نے اس خطبے میں اسلام کے حوالے سے جن باتوں کا درس دیا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں تھیں ۔ قرآن حکیم کو بہ غور پڑھا جائے تو یہی نےنتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے۔ یہ دین ِ مبین نہ صرف اپنوں کے لیے بلکہ غیروں کے لیے بھی نسخہِ اکسیر ہے ۔ یہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے رحمت ہی رحمت ہے ۔ ہر ایک اس آفاقی دین کے دامن ِ عافیت میں آکر حقیقی سکون حاصل کر سکتا ہے ۔یہ الہامی اصولوں پر مبنی ایسا دین ِ مبین ہے ، جو اقوام عالم کے لیے امن ، سکون اور آتشی کا ضامن ہے ۔   

الم ناک سانحہ

موضوع ذرا پرانا ہے ۔ مگر ایسا ہے کہ اغماض برتنے  کو جی نہیں چاہتا ۔ یہ موضوع دیگر موضوعات سے زیادہ   ا نہیں ہے۔کیوں کہ موضوع جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے ، اہمیت کھوتا جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی لکھنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ پیر سے لے کر ہفتے تک ذہن میں بہت سے موضوعات کلبلاتے رہے ۔ میرے سامنے یمن کا مو ضوع تھا ۔ عرب امارات کے وزیر کی طرف سے پاکستان کے خلاف بیان بازی اور پھر اس پر ہمارے وزیر ِ داخلہ کے سخت رد َ عمل کا موضوع تھا ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور  ڈاکٹر  عبد العزیز بن عبد اللہ العمار کی مثبت باتوں کا موضوع تھا ۔ جنھوں نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بہترین انداز سے یمن کی کشیدگی کے ضمن میں سعودی عرب کے  موقف کا اظہار کیا ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ سعودی عرب کے وزیر ِ مذہبی امور نے جس طرح مثبت انداز میں اپنے موقف کا اظہار کیا ، اس سے اچھا کوئی مثبت موضوع تھا ہی نہیں ۔

پاکستانی ٹیلنٹ

یہ خبر اگرچہ تھوڑی سی پرانی ہے ، لیکن دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ جرمن ویب سائٹ ڈی ڈبلیو نے بارہ فروری 2015کو اپنی ویب سائٹ پر پاکستانی محققین کے ایک کام یاب تجربےکے بارے میں خبر شائع کی تھی ۔ میں اس خبر کی چند چیدہ چیدہ باتیں یہاں تحریر کرتا ہوں ۔اس خبر کے مطابق: پاکستانی محققین نے گھریلو کوڑے کرکٹ میں شامل پلاسٹک کو انتہائی جدید طریقے سے ری سائیکل کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ۔پاکستان میں اس طریقہ کار سے متعلق تجربات حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں کیے گئے ہیں۔ یہ تجربات شاہ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم اور معدنیات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحت علی کی زیر نگرانی انجام دیے گئے ہیں۔کراچی کے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈکٹر رضا شاہ بتاتے ہیں کہ پلاسٹک ری سائکلنگ کا یہ طریقہ نہایت ماحول دوست ہے، "یہ ایک ایسا پراسس ہے جس میں پلاسٹک کا کوڑا فیول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں خاص طور سے کراچی کے جو بڑے مسائل ہیں ان میں سے ایک آلودگی ہے۔ اس کی بڑی وجہ پلاسٹک کا کوڑا ہے جس میں پولیتھن بیگ کی سب سے زیادہ تعداد ہے جو ماحول میں شامل ہو کر تلف نہیں ہوت

اتحاو اتفاق ۔۔۔مسلمانوں کی اہم ضرورت

اس میں شک نہیں کہ اتحاد و اتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے کبھی کبھی مسلمانوں کو اس سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں ۔ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں ۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہے ۔ دنیا کے اٹھاون ممالک پر مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ عیسائیوں کے بعد  دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی کیا اہمیت ہے ، وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اس وقت مسلمانوں کو کئی قسم کے خطرات لا حق ہیں ۔ جن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن میری نظر میں سب سے بڑی وجہ مسلم دنیا میں پھیلی نا اتفاقی اور انتشار ہے ۔ کہیں فرقہ واریت ہے  تو کہیں قوم پرستی ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ تعصب ہے ۔  مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے ، وہ اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر سکیں گے ۔ ان کی حالت یہی رہے گی ۔ وہ اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر قسم کے نا اتفاقی اور انتشار پھیلانے والے عوامل سے گریز کریں ۔ 

نقل امریکا اور بھارت میں

یقین جانیے ، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے "نقل کی روک تھام " کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے ۔ بھارت کے طلبہ کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں کابنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے ۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟اگر  ہم اپنی  تحریروں کے ذریعےاپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں  تو یہ بالکل  اچھی بات نہیں ہے ۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ہمارے حساس  دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے ۔ اس لیے  ہم نے ایک جذباتی کالم لکھ مارا ۔کیوں کہ ہمارے  لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی تھی کہ نقل "صرف " ہمارے بچے  کرتے ہیں ۔ لیکن  جب ہمیں معلوم ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک چ

نقل کی روک تھام

پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب نقل کلچر ہے ۔ مجھے دیگر صوبوں کا علم نہیں ، لیکن جس طرح صوبہ ِ سندھ کے شہر کراچی میں نقل ہوتی ہے ، اس سے ہماری تعلیم کے معیار کا پول کھل جاتا ہے ۔ ان دنوں امتحانا ت کا دور دورہ ہے ۔ اسکولوں میں امتحانات ہو گئے ہیں ۔ اگلے مہینے کی ابتدا میں کراچی میں جماعت نہم اور دہم کے امتحانات شروع ہوں گے ۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات ہوں گے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ امتحانات سے بالکل خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے چہروں سے پریشانی ذرا بھی  نہیں جھلکتی ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں نقل کر کے پاس ہو جائیں گے ۔ یہ نقل ہی ان کے کام یاب ہونے کا واحد سہارہ ہے ۔ 

اردو کا مسئلہ

پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق:  (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔  (2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔ (3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات  تجویز کر سکے گی ۔