اشاعتیں

پاکستان میں بھارتی نصاب

نوجوان  کی ساری تعلیم پاکستان کی تھی ۔ اس وقت بھی وہ پاکستان کی ایک اعلا درس گاہ میں زیر ِ تعلیم تھا ۔ وہ قانون دان بننا چاہتا تھا ۔ اس لیے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ وہ اعلا تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔کبھی ملک سے باہر نہیں گیا تھا ۔ ہمیشہ یہیں رہا ۔ یہیں کی چیزیں کھائیں ۔ یہیں کا پانی پیا ۔ یہیں پلا بڑھا ۔اس کے آباء و اجداد پچھلے کئی سو سالوں سے پاکستان  کی سرزمین پر رہ رہے تھے ۔ کتنے سو سالوں سے ؟ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا  تو میرے پاس کیا ہو گا ۔ یعنی کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس کے باپ دادا ہجرت کرکے پاکستان نہیں آئے تھے ۔  اس کے سارے دوست بھی یہیں کے تھے ۔ ہو سکتا ہے ، کبھی کبھا ر اسے انڈیا اور دیگر ملکوں کے لوگ انٹرنیٹ پر مل جاتے ہوں ۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق کبھی بھی انڈیا یا کسی ملک سے نہیں رہا ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نوجوان سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد پاکستانی تھا ۔

یولو جیس کی جنونی تحریک کا احوال

اندلس کے چوتھے اموی سلطان عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس میں ایک عجیب و غریب جنونی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اگر چہ بہت سے مورخین نے اس کو "مذہبی جنون" قرار دیا ہے ۔ مگر میں اسے "مذہبی جنون" نہیں ، بلکہ "جنونی تحریک" کہوں گا ۔ کیوں کہ کوئی مذہب اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر چہ اس جنون کو اپنانے والا کتنا ہی مذہب کا نام لے ۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہو چکی ہے ۔ جب لوگ مذہب کے نام پر شدت کو اپناتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو "مذہبی شدت پسند" قرار دے دیتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ مذہب سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں  اور نا دانستہ طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی مذہب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دانشور طبقے کو چاہیے کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے ذرا احتیاط سے کام لے۔

خطبہ ِ حج۔۔۔سانحہ ِ منیٰ

وقوف ِ عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نےخاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طورپر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی  گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے ۔ اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلا

بڈھ بیر کا سانحہ

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن  کو پاکستان میں ایک اور سانحہ ہوا ۔ پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے ۔ جب کہ دوسری طرف 13 حملہ آور ہلاک کر دیے گئے ۔ حملہ آور وں نے ایف سی کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ یہ حملہ آور فجر کے وقت کیمپ میں داخل ہو ئے ۔ انھوں نے آتے ہی مسجد میں موجود نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی ۔ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بموں سے حملہ بھی کیا ۔ جس کی وجہ سے 16 نمازی شہید اور 10 زخمی ہو گئے ۔ پھر پاک فوج کے جوانوں اور حملہ آوروں کے درمیان دست بدست لڑائی شروع ہوگئی۔  حملہ آوروں کے عزائم خطر ناک تھے ۔ وہ پاک فضائیہ کے افسران کے گھروں تک پہنچ کر ان کے بچوں کو یر غمال بنانا چاہتے تھے ۔ اگر پاک سکیورٹی فورسز کے جوان بر وقت کارروائی نہ کرتے تو شاید یہ حملہ آور اپنے مقاصد میں کام یاب ہو جاتے ۔ قدرے توقف کے بعد کوئیک ریسپانس فورس کے دستوں نے پہنچ کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ اور حملہ آوروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا ۔

وہ جو سوئے حرم چلے اور واپس نہ آئے

قوی ارادہ تھا کہ اس دفعہ سپریم کورٹ کے اردو کے حق میں دیے گئے فیصلہ پر لکھوں گا ۔کیوں کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر مجھ جیسے اردو کے شائق کے لیے ایک بہترین خبر تھی ۔لیکن بروز ِ ہفتہ کے اخبارات کی سیاہ سرخیوں نے  ارادہ  یکسر تبدیل کر دیا ۔ کبھی کبھی یوں ہی ہوتا ہے کہ اخیر لمحے میں موضوع تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ پھر کالم جتنے  تاز ہ موضوع پر ہوگا ، اتنی ہی لوگوں کی توجہ حاصل کرے گا ۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ِ نظر یہ بھی ہے کہ حرم ِپاک سے مسلمانوں کا روحانی اور دینی رشتہ  ہے ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس پر ضرور لکھنا چاہیے ۔ 

"کس قوم کو للکارا ہے؟"

6 ستمبر 1965 ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔  کیوں کہ  آ ج سے ٹھیک پچاس سال قبل اس دن پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دے دی تھی ۔ پوری دنیا ورطہ ِ حیرت میں تھی کہ پاکستان نے اتنا بڑا کا م کیسے کر دیا ۔  کیوں کہ بھارت ہم سے ہر لحاظ سے بہتر تھا ۔  اس کے پاس فوج بھی زیادہ تھی ۔ اسلحہ بھی زیادہ تھا ۔ لیکن اس کے  باوجود وہ پاکستان کے ایک علاقے پر بھی قبضہ نہ کر سکا ۔ اسے ہر جگہ منھ کی کھانی پڑی ۔ 17 دنوں تک جنگ جاری رہی ۔ بالآخر پاکستان کو فتح حاصل ہو گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ بعض شعبے ایسے بھی تھے جس  میں بھارت ہم پر 11 گنا برتری کا حامل تھا ۔پاکستان نے مصلحت کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں پہل کرنے سے گریز برتا ۔ یہ بھارت تھا ، جس نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے زندہ ولوں کے شہر لاہور پر دھاوا بول دیا ۔ مگر اس کے قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی ۔   

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔