اشاعتیں

مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں  کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔

کشمیر کا لہو

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک وادی ِ کشمیر لہو لہان ہے ۔یہ وادی اکثر و پیشتر لہو لہان ہوتی رہتی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔اس وادی کے بار بار سلگنے کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ اگر اس دفعہ پچاس سے زائد لوگ شہید اور کئی سو لوگ زخمی ہوگئے تو کیا ہوگیا ۔ جو چیز بار بار ہوتی آرہی ہے ، اس پر احتجاج ، واویلا ، غصہ ، اقوام ِ متحدہ میں آواز اور یوم ِ سوگ کا کیا فائدہ ! ہاں ، اثرات نظر آئیں تو پھر چیخ و پکار بھی ہونی چاہیے ، شور بھی ہونا چاہیے ، احتجاج کی ہڑبونگیں بھی ہونی چاہئیں ۔ اقوام ِ متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے اور یوم ِ سوگ بھی منانا چاہیے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ان 'حرکات ' سے کشمیر کے منظر نامے میں ذرا سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ۔ ظلم اسی طرح جاری ہے ۔تشدد کا اسی طرح عروج ہے ۔ وادی اسی طرح اداس ہے ۔

محمد احمد سبزواری نہیں رہے

کل کی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کی 'سوشل میڈیا  سلیبریٹی' قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میڈیا بتاتا ہے کہ ان کو ان کے بھائی نے غیرت  کے نام پر قتل کیا ۔وہ متنازعہ تو تھیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو یوں ہی قتل کر دیا جاتا ۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ کل ایک  اور افسوس ناک خبر بھی آئی ۔مگر یہ افسوس ناک صرف مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے ، آپ بھی یہ 'افسوس ناک'خبر پڑھ کر مسکرا دیں ۔ خبر یہ ہے کہ محمد احمد سبزواری ، جو کہ معروف کالم نگار اور میعشت دان تھے ، 104 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اخبار کے لیے انھوں نے 23 سال تک کالم نگاری کی تھی ، اس میں دوسرے صفحے پر ایک یک کالمی   خبر شائع ہوئی ۔ مجھے کل فیس بک پر  ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی ایک پوسٹ کی وساطت سے اس خبر کا علم ہوا ۔ درحقیقت محمد احمد سبزواری جیسے لوگ ہمارے لیے اصل اور حقیقی سلیبریٹی کی حیثیت رکھتے  ہیں ۔

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے ۔ جانا تو سب کو ہوتا ہے۔سب کی منزل وہی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ جا کر بھی نہیں جاتے ۔پتا ہے ، وہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ ہمارے بابا جیسے لوگ ۔یعنی وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ جن کی خواہشیں ، جن کی امنگیں، جن کی خوشیاں ۔۔غرض سب کچھ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے ۔ بابا ایدھی کا پورا نام عبدالستار ایدھی تھا ۔لیکن وہ ہمارے بابا تھے ۔ پوری قوم کے بابا ۔غریب بستیوں کے رہنےوالوں کے  بابا۔سچ پوچھیے تو پوری انسانیت کے بابا ۔اس لیے میں ان کو بابا ایدھی کہوں گا ۔ تاریخ ِ پاکستان میں ہم نے ایسا بابا نہیں دیکھا ۔ ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مسجد ِ نبوی کے قریب حملہ۔۔۔مسلمان کب جاگیں گے؟؟

خلیفہ ِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب باغی مدینہ منورہ تک پہنچ گئے تو ایسے نازک حالات میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تین تجویزیں پیش کیں ۔ ان  میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ آپ جہاد کا حکم دے دیجیے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ برد بار اور حلیم الطبع تھے ۔آپ نے فرمایا :"مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوکر امت کا خون بہاؤں ۔میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا ، جو امت ِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں خون ریزی کی ابتدا کرے ۔"یہ واقعہ مجھے مسجد ِ نبوی کے قریب ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پر یاد آیا۔ جس میں چار لوگ شہید ہوگئے ۔ یہ کون لوگ ہیں ، جو سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے قریب خود کش دھماکے کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بے شک یہ اندوہ گیں واقعہ  تما م عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ ایک ایسا مقام جس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے مجھ ایسے ناتواں اور عاصی شخص کے لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوجائے ، لیکن عظمت ختم نہ ہو ۔ ایک ایسا مقام جہاں بادشا ہ ، فقیر بن

سبق آموز واقعات

اچھا انسان وہ ہوتا ہے ، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت پکڑتا ہے ۔وہ قصوں ، کہانیوں کو محض تفنن ِ طبع کے لیے نہیں پڑھتا ، بلکہ ان میں پنہاں سبق اور نصیحت پر عمل کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے ۔ دنیا کی سب سے سچی کتا ب اور اللہ تعالیٰ کے آخری صحیفہ ِ ہدایت میں حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کا پر عبرت قصہ بیان کر کے کہا گیا : "یقیناََ ان کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے سامان ِ عبرت ہے۔"(سورۃ یوسف ، آیت نمبر 111) آج کی تحریر میں چند سبق آموز وقعات بیان کیے جائیں گے ۔ یہ واقعات اس لیے لکھے جارہے ہیں ، تاکہ سبق یا نصیحت حاصل ہو ۔ اس لیے کتابوں  کا حوالہ نہیں دیا جائے گا ۔ کیوں کہ نصیحت کے لیے سند کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی ۔ 

اسلام کا ضابطہ ِ اخلاق

ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟اس کا جواب فی الوقت نہیں مل رہا ۔ اگر کوئی عام شخص اخلاق سے گری ہوئی بات کرے تو زیادہ افسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی عام شخص ۔ مگر جب خواص بھی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے لگیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو کچھ حافظ حمد اللہ اور ماروی سرمد کے درمیان ہوا ہے ، وہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ یو ٹیوب ایسی وڈیو کلپس سے بھری پڑی ہے ، جو ہمارے خواص کے اخلاقی دیوالیہ پن کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وہ ضابطہ اخلاق اپنائے ۔ جس کا درس اللہ  تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں ۔ہمارا دین اخلاق  کا سب سے بڑا داعی ہے ۔ آج کی تحریر میں ہم کسی حد تک اسلامی ضابطہ ِ اخلاق کا جائزہ لیتے ہیں :