اشاعتیں

وہ جو سوئے حرم چلے اور واپس نہ آئے

قوی ارادہ تھا کہ اس دفعہ سپریم کورٹ کے اردو کے حق میں دیے گئے فیصلہ پر لکھوں گا ۔کیوں کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر مجھ جیسے اردو کے شائق کے لیے ایک بہترین خبر تھی ۔لیکن بروز ِ ہفتہ کے اخبارات کی سیاہ سرخیوں نے  ارادہ  یکسر تبدیل کر دیا ۔ کبھی کبھی یوں ہی ہوتا ہے کہ اخیر لمحے میں موضوع تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ پھر کالم جتنے  تاز ہ موضوع پر ہوگا ، اتنی ہی لوگوں کی توجہ حاصل کرے گا ۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ِ نظر یہ بھی ہے کہ حرم ِپاک سے مسلمانوں کا روحانی اور دینی رشتہ  ہے ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس پر ضرور لکھنا چاہیے ۔ 

"کس قوم کو للکارا ہے؟"

6 ستمبر 1965 ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔  کیوں کہ  آ ج سے ٹھیک پچاس سال قبل اس دن پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دے دی تھی ۔ پوری دنیا ورطہ ِ حیرت میں تھی کہ پاکستان نے اتنا بڑا کا م کیسے کر دیا ۔  کیوں کہ بھارت ہم سے ہر لحاظ سے بہتر تھا ۔  اس کے پاس فوج بھی زیادہ تھی ۔ اسلحہ بھی زیادہ تھا ۔ لیکن اس کے  باوجود وہ پاکستان کے ایک علاقے پر بھی قبضہ نہ کر سکا ۔ اسے ہر جگہ منھ کی کھانی پڑی ۔ 17 دنوں تک جنگ جاری رہی ۔ بالآخر پاکستان کو فتح حاصل ہو گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ بعض شعبے ایسے بھی تھے جس  میں بھارت ہم پر 11 گنا برتری کا حامل تھا ۔پاکستان نے مصلحت کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں پہل کرنے سے گریز برتا ۔ یہ بھارت تھا ، جس نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے زندہ ولوں کے شہر لاہور پر دھاوا بول دیا ۔ مگر اس کے قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی ۔   

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔ 

جنرل حمید گل بھی "مرحوم" ہو گئے

موت قدرت کا اٹل فیصلہ ہے ۔ موت بر حق ہے ۔ چودہ صدیاں قبل دنیا کی سب سے اہم ترین کتاب نے انسانوں کو ان کے خالق کا یہ پیغام سنایاکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ کئی لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں ۔ لا ریب ان کا جسم فانی ہو جاتا ہے ۔ لیکن وہ کتابوں میں، نصابوں  میں اور لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ ان کے زندہ رہنے کی وجہ ان کے کار نامے ہوتے ہیں ۔ ملک و قوم کے ضمن میں ان کی خدمات ہوتی ہیں ۔ انھوں نے انسانیت کے دکھوں کی چارہ جوئی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوتی ہے ۔

قصور اسکینڈل ۔۔۔ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟؟

میرے سامنے قصور اسکینڈل اپنی تما م تر ہیبت اور وحشیانہ منظر کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ میں اس منظر سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں ۔ اس خبر سے دور بھاگنا چاہتا ہوں ۔ لیکن یہ کام  بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ارادہ تھا  کہ یوم ِ آزادی پر لکھوں گا ۔ اپنے پڑھنے والوں کو کچھ تاریخی واقعات کی سیر کراؤں گا ۔ لیکن ایسا نہیں کر سکتا ۔ مجھے طوعا کرہا بابا بلھے شاہ کے قصور میں ہونے والے وحشیانہ سانحے پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا ۔ اس بھیانک واقعے سے راہ ِ فرار اختیا ر کرنا میرے مشکل  کیا ، نا ممکن ہو چکا ہے ۔ 

الحمد للہ ۔۔الحمد للہ

رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا ۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا ۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے ۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی   کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سےبے ساختہ "الحمد للہ " کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ "الحمد للہ " کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں "۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے ۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔

"اسلام نافذ ہو گیا ۔۔۔۔"

"پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن  جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ "