اشاعتیں

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔ 

جنرل حمید گل بھی "مرحوم" ہو گئے

موت قدرت کا اٹل فیصلہ ہے ۔ موت بر حق ہے ۔ چودہ صدیاں قبل دنیا کی سب سے اہم ترین کتاب نے انسانوں کو ان کے خالق کا یہ پیغام سنایاکہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ کئی لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں ۔ لا ریب ان کا جسم فانی ہو جاتا ہے ۔ لیکن وہ کتابوں میں، نصابوں  میں اور لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ ان کے زندہ رہنے کی وجہ ان کے کار نامے ہوتے ہیں ۔ ملک و قوم کے ضمن میں ان کی خدمات ہوتی ہیں ۔ انھوں نے انسانیت کے دکھوں کی چارہ جوئی کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوتی ہے ۔

قصور اسکینڈل ۔۔۔ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟؟

میرے سامنے قصور اسکینڈل اپنی تما م تر ہیبت اور وحشیانہ منظر کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ میں اس منظر سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں ۔ اس خبر سے دور بھاگنا چاہتا ہوں ۔ لیکن یہ کام  بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ارادہ تھا  کہ یوم ِ آزادی پر لکھوں گا ۔ اپنے پڑھنے والوں کو کچھ تاریخی واقعات کی سیر کراؤں گا ۔ لیکن ایسا نہیں کر سکتا ۔ مجھے طوعا کرہا بابا بلھے شاہ کے قصور میں ہونے والے وحشیانہ سانحے پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا ۔ اس بھیانک واقعے سے راہ ِ فرار اختیا ر کرنا میرے مشکل  کیا ، نا ممکن ہو چکا ہے ۔ 

الحمد للہ ۔۔الحمد للہ

رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا ۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا ۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے ۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی   کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سےبے ساختہ "الحمد للہ " کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ "الحمد للہ " کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں "۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے ۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔

"اسلام نافذ ہو گیا ۔۔۔۔"

"پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن  جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ "

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے

درحقیقت کتابت ِ حدیث کا آغاز عہد ِ رسالت ماٰب ﷺ میں شروع ہو گیا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے  نہ صرف  کتابت ِ حدیث کے کام کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ آپ ﷺ نے چند مواقع پر خود اپنی سرپرستی میں احادیث لکھوائیں ۔   رسول اللہ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھی گئیں چند احادیث کی کتابیں درج ذیل ہیں:  1۔ صحیفہ ِ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 2۔ الصحیفۃ الصادقہ 3۔ کتاب الصدقہ ِ 4۔   صحیفہِ علی رضی اللہ عنہ  

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت !

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! میرے دامن میں ایسا کچھ نہیں ہے ، جو میں تمھاری نذر کر سکوں ۔ سوائے چند الفاظ کے ۔ میں کوئی سیاست دان نہیں ، جو بیان بازیاں کروں ۔ کوئی سکہ بند شاعر نہیں جو قافیوں پر قافیے ملا کر تمھارے لیے کوئی مرثیہ نظم کروں ۔ فقیہ ِ وقت نہیں کہ فتوے رقم کروں ۔ واعظ ِ شہر نہیں کہ تمھاری مدح میں وعظ کر کے خلقت کا دل لبھا سکوں ۔ میں ایک چھوٹا سا قلم کار ہوں۔ سو میری آج کی  تحریر کے سارے الفاظ تمھارے لیے وقف ہیں ۔ اسے تم میرے دل کی آواز کہو یا اپنے لیے خراج ِ عقیدت ۔ یہ تم پر انحصار کرتا ہے ۔