اشاعتیں

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ 

ڈی ایف اے ساؤتھ کی مثبت پیش رفت

کسی پس ماندہ علاقے سے مثبت خبر آئے تو اس کی ضرور تشہیر کرنی چاہیے ۔ غریب کی بستی میں روٹی تقسیم ہورہی ہو تو خوب ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے ۔ جہاں سے ہر وقت منفیت کی گونج سنائی دے ، اگر وہاں سے اثبا ت کی تھوڑی سی مہک بھی محسوس ہو ، اسی وقت سارے عالم کو بتا دینا چاہیے ۔ تاکہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ، جو یہ کار  ہائے خیر سر انجام دے رہے ہوں ۔ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی مثبت خبر کو موضوع ِ سخن بناؤں ، لیکن یہ کوشش ہمیشہ نہیں تو اکثر اکارت جاتی ہے ۔ اب تو ہمارے لوگ بھی ایسے موضوعات پسند کرنے لگے ہیں ، جن میں مہنگائی کا رونا ہو ، غربت کی دہائی ہو ، لاشوں کے سانحے ہوں ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا مصالحہ ہو  یا ان موضوعات سے ملتا جلتا کوئی موضوع ہو ۔ 

دس مہینے کی بچی

بابا کی محفل میں سکوت ِ مرگ چھایا ہوا تھا ۔ وہ خود بھی خاموش تھے ، ان کی مرید بھی چپ تھے ۔ بابا کی محفلیں اکثر و بیشتر تبسم بانٹتی تھیں ۔ جو بھی یہاں آتا ، خوش وخرم ہو جاتا ۔ مگر کبھی کبھار سکوت چھا جاتا ۔ خاموشی اس محفل کو ہر طرف سے گھیر لیتی تھی ۔ یہ اسی وقت ہوتا ، جب کوئی جاں کاہ حادثہ پیش آتا ۔ جب انسانوں کا خون ہوتا تو بابا سمیت اس کے مریدین اداس ہو جاتے ۔ بابا ایسے واقعات کے بعد تبصرے بھی کرتے ، جو بڑے پر مغز ہوتے ۔ ان کے مریدین ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ۔ آج کا سکوت بھی یہ بتا رہا تھا کہ کسی کاخون ہوگیا ہے ۔ تبھی تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔ جی ہاں ، ایک ایسی بچی کا انتقال ہو گیا تھا ، جس نے اپنی عمر کی پہلی بہار بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بچے تو روز ہی مرتے ہیں، مگر یہ دس ماہ کی بچی جس وجہ سے مری تھی ، اس وجہ نے بابا کو سخت ملول کر دیا تھا ۔ بابا کا اداسی بتا رہی تھی کہ اس واقعے نے انھیں غم زدہ کر دیا ہے ۔ 

بارہ ربیع الاول

میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور محبت  کو عام کر دیتا ہوں  

جیالا

ہر طرف گہما گہمی تھی، کیوں کہ انتخابات قریب تھے ۔سرکار کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ لوگ شدت سے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے تھے ۔ من چلے نوجوان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس کے لیے انھوں نے جھنڈے اور کارڈ وغیرہ لے رکھے تھے ۔ انتخابات ہونے میں کچھ دن رہتے تھے ۔ دلچسپیاں بڑھتی جارہی تھیں ۔ نعرے بازیاں عام ہورہی تھیں ۔ کبھی دن ڈھلے ، کبھی سر ِ شام اور کبھی رات کو ۔ پارٹی کے سربراہان کے جذبات بھی قابل ِ دید تھے ۔ جہاں آتے ، مخالف پارٹیوں  کی خوب دھجیاں اڑاتے ۔ عوام کو سبز باغ دکھاتے ۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا ، جیسے انتخابات کے بعد واقعی سب کچھ بدل جائے گا ۔ غربت ختم ہوجائے گی ۔اداسیاں روٹھ جائیں گی ۔ زرد چہرے خوشی سے تمتما اٹھیں گے ۔ دہشت گردی اور قتل وغرت گری کبھی نہیں ہوگی ۔ عوام ایک گیلن پانی کے لیے سڑکوں سڑکوں نہیں بھٹکیں گے ۔ مہنگائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ بہاریں ہی بہاریں ہوں گی ۔بوڑھے پیشین گوئیاں کر نے میں مصروف تھے ۔یعنی ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ کون جیتےگا اور کون ہارے گا ۔ اس ضمن میں