اشاعتیں

نائین الیون نے کیا دیا؟

9/11 کا واقعہ 2001ء میں پیش آیا ۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2750 لوگ نیو یارک میں ، 184 پینٹاگون میں اور 40 لوگ پینسلوانیا میں ہلاک ہوئے ۔ امریکا نے ان دھماکوں کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ یہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک ترین اور موت آور دھماکے سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ دراصل چار فضائی حملے تھے ۔ واضح رہے کہ جن طیاروں سے یہ حملے کیے گئے ، وہ امریکا کے اغوا شدہ طیارے تھے ۔ 11 ستمبر کو صبح آٹھ بجے ایک طیارہ امریکا کی بلندو بالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا ۔ اٹھارہ منٹ بعد تباہ شدہ عمارت کے قریب ، دوسری عمارت سے دوسرا طیارہ ٹکرایا ۔ ایک گھنٹے بعد تیسرا اغوا شدہ طیارہ پینٹا گون پر گرایا گیا ۔ آدھے گھنٹے بعد پنسلوانیا میں ان حادثات سے ملتا جلتا ایک حادثہ پیش آیا ۔ اس عظیم واقعے نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ۔ دراصل یہی وہ عظیم واقعہ ہے ، جس سے پورے عالم میں صحیح طور پر امریکی برتری کا آغاز ہوا ۔ اس لیے اس واقعے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دن ہونے والے چار حادثات میں لگ بھگ 2974 لوگ ہلاک ہوئے ، لیکن ان 2974 لوگوں کی ہلاکت کے بدلے میں امریکا

چودہ اگست کا پیغام

14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا۔ یہ وہ عظیم دن ہے ، جس دن مسلمانان ِ ہند کو آزادی ملی ۔ آزادی کی اس تحریک میں بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ، شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید احمد خان ، نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، اے کے فضل الحق ، چوہدری رحمت علی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے قائدین کی انتہائی اہم خدمات ہیں ۔ جو خواب حکیم الامت ، شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا ، بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کیا ۔ پاکستان کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر رکھی گئی تھی ۔ اس نظریے کے بانی سر سید احمد خان تھے ۔ سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج کے طالب علموں نے تحریک ِپاکستان میں انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح مسلمانان ِ ہند کی آزادی میں سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا  تھا ۔

مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں  کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔

کشمیر کا لہو

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک وادی ِ کشمیر لہو لہان ہے ۔یہ وادی اکثر و پیشتر لہو لہان ہوتی رہتی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔اس وادی کے بار بار سلگنے کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ اگر اس دفعہ پچاس سے زائد لوگ شہید اور کئی سو لوگ زخمی ہوگئے تو کیا ہوگیا ۔ جو چیز بار بار ہوتی آرہی ہے ، اس پر احتجاج ، واویلا ، غصہ ، اقوام ِ متحدہ میں آواز اور یوم ِ سوگ کا کیا فائدہ ! ہاں ، اثرات نظر آئیں تو پھر چیخ و پکار بھی ہونی چاہیے ، شور بھی ہونا چاہیے ، احتجاج کی ہڑبونگیں بھی ہونی چاہئیں ۔ اقوام ِ متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے اور یوم ِ سوگ بھی منانا چاہیے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ان 'حرکات ' سے کشمیر کے منظر نامے میں ذرا سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ۔ ظلم اسی طرح جاری ہے ۔تشدد کا اسی طرح عروج ہے ۔ وادی اسی طرح اداس ہے ۔

محمد احمد سبزواری نہیں رہے

کل کی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کی 'سوشل میڈیا  سلیبریٹی' قندیل بلوچ کو قتل کر دیا گیا ہے ۔میڈیا بتاتا ہے کہ ان کو ان کے بھائی نے غیرت  کے نام پر قتل کیا ۔وہ متنازعہ تو تھیں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کو یوں ہی قتل کر دیا جاتا ۔ بہر حال اب وہ دنیا میں نہیں رہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ کل ایک  اور افسوس ناک خبر بھی آئی ۔مگر یہ افسوس ناک صرف مجھ جیسے لوگوں کے لیے ہوسکتی ہے ۔ ہوسکتا ہے ، آپ بھی یہ 'افسوس ناک'خبر پڑھ کر مسکرا دیں ۔ خبر یہ ہے کہ محمد احمد سبزواری ، جو کہ معروف کالم نگار اور میعشت دان تھے ، 104 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس اخبار کے لیے انھوں نے 23 سال تک کالم نگاری کی تھی ، اس میں دوسرے صفحے پر ایک یک کالمی   خبر شائع ہوئی ۔ مجھے کل فیس بک پر  ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی ایک پوسٹ کی وساطت سے اس خبر کا علم ہوا ۔ درحقیقت محمد احمد سبزواری جیسے لوگ ہمارے لیے اصل اور حقیقی سلیبریٹی کی حیثیت رکھتے  ہیں ۔

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے

ہمارے ایدھی بابا چلے گئے ۔ جانا تو سب کو ہوتا ہے۔سب کی منزل وہی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ جا کر بھی نہیں جاتے ۔پتا ہے ، وہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ ہمارے بابا جیسے لوگ ۔یعنی وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں ۔ جن کی خواہشیں ، جن کی امنگیں، جن کی خوشیاں ۔۔غرض سب کچھ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے ۔ بابا ایدھی کا پورا نام عبدالستار ایدھی تھا ۔لیکن وہ ہمارے بابا تھے ۔ پوری قوم کے بابا ۔غریب بستیوں کے رہنےوالوں کے  بابا۔سچ پوچھیے تو پوری انسانیت کے بابا ۔اس لیے میں ان کو بابا ایدھی کہوں گا ۔ تاریخ ِ پاکستان میں ہم نے ایسا بابا نہیں دیکھا ۔ ہمارے قومی شاعر نے کہا تھا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

مسجد ِ نبوی کے قریب حملہ۔۔۔مسلمان کب جاگیں گے؟؟

خلیفہ ِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب باغی مدینہ منورہ تک پہنچ گئے تو ایسے نازک حالات میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تین تجویزیں پیش کیں ۔ ان  میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ آپ جہاد کا حکم دے دیجیے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ برد بار اور حلیم الطبع تھے ۔آپ نے فرمایا :"مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوکر امت کا خون بہاؤں ۔میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا ، جو امت ِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں خون ریزی کی ابتدا کرے ۔"یہ واقعہ مجھے مسجد ِ نبوی کے قریب ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پر یاد آیا۔ جس میں چار لوگ شہید ہوگئے ۔ یہ کون لوگ ہیں ، جو سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے قریب خود کش دھماکے کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بے شک یہ اندوہ گیں واقعہ  تما م عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ ایک ایسا مقام جس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے مجھ ایسے ناتواں اور عاصی شخص کے لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوجائے ، لیکن عظمت ختم نہ ہو ۔ ایک ایسا مقام جہاں بادشا ہ ، فقیر بن