وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب
تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر
ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ
کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام
کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے
میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں
کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان
پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی
پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس
کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی
سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے
پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔
لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے
واقعات کے بارے میں ضرور علم ہوتا تھا ۔
Sunday, February 28, 2016
Sunday, February 21, 2016
عوام سب کچھ سمجھ گئے
نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔ چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔
Saturday, February 13, 2016
نج کاری کی کہانی
کسی ملک میں حکومت نے ایک ادارہ بنایا ۔ اس
پر خوب محنت کی گئی ۔ اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خوب سرمایا لگایا گیا ۔ کیوں
کہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا ۔ بڑے لوگ سمجھتے تھے کہ محنت کریں گے تو کچھ ہا تھ لگے
گا ۔ سرمایہ خرچ ہوگا تو کچھ ملے گا۔ سو حکومت کی محنت رنگ لائی ۔ ادارہ بن گیا ۔
لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔یہ ادارہ کافی منافع بخش ثابت ہوا ۔ اس نے
کئی لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ حل کیا ۔ کئی خاندانوں کو سہارہ دیا ۔ اس ادارے
نے حکومت کو بھی فائدہ دیا، عوام کو بھی مالا مال کیا ۔ وجہ اس کا معیار تھا ۔ جس
ادارے پر محنت کی جائے گی تو خود بہ خود اس کا معیار بن جائے گا ۔ یہ معیار ہی تھا
کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو مشہور کر دیا ۔دیگر ممالک کے ادارے ،
یہاں کے عملے سے مستفید ہونے لگے ۔ یوں اس ادارے نے بہت سے ممالک کے دوسرے
اداروں کو بنایا اور سنوا را ۔ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ملتا ہے ۔ بے شک ملتا ہے ۔
اس ادارے پر جس طرح محنت کی گئی ، اس محنت نے اس کو ہر جگہ سر خرو کر دیا ۔
Saturday, February 6, 2016
کشمیر کا مسئلہ
بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ،
جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔ بازارِ
صحافت میں 5 اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس
کے نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی وی پر
اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ، سنا گیا ، لکھا
گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ نظر رکھتے ہوئے مجھے
کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام حالات ِ حاضرہ پر مبنی
تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا
موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ، جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند
کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5 فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی
رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے
فی الحقیقت تازہ سے تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔
بازار ِ صحافت کا اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Featured post
Khutbat-e-Ahmadiya---The Forgotten Book
"Khutbat-e-Ahmadiyya" is the series of lectures delivered by Sir Syed Ahmad Khan in Allahabad in 1886, after his return from E...
-
تحر یر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق آئے دن سوشل میڈیا پر ایسے ایسے شعر پڑھنے کو ملتے ہیں جو سرے سے شعر ہی نہیں ہوتے۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ ا...
-
تحر یر: نعیم الرّحمان شائق ایک استاذ کو پڑھاتے ہوئے مختلف قسم کی حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ ایک جماعت میں مختلف قسم کے بچے ہوتے...
-
نعیم الرّحمان شائق خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو کے عظیم شاعر،نثر نگار، ادیب اور نقاد تھے۔ 1837ء میں ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیدا ...