اشاعتیں

اسلامی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

نصیحت آموز باتیں

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں  کہ جن کو ایک بار پڑھا جائے تو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ایسی ہی کتاب میری نظروں سے گزری ۔ اس کتاب کو سرسری طور پر دیکھا تو یہ ایک نصیحت آموز کتاب تھی ۔ اس میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بزرگان ِ دین کی نصیحتیں تھیں ۔ میرا ماننا ہے کہ جو کتاب جنتے زیادہ خلوص کے ساتھ لکھی جائے گی ، اس کی قدر واہمیت اسی قدر زیادہ ہوگی ۔وہ اسی قدر شہرت حاصل کرے گی ۔ مذکورہ بالا کتاب  کے مولف نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم ہیں ۔ یہ بزرگ اور عالم ِ دین الفقیہ ابو اللیث سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کا انتقال سن 373 ہجری میں ہوا تھا ۔ کتاب  کانام "تنبیہ الغافلین " ہے ۔ غور کریں کہ مولف کے انتقال کو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، لیکن ان کی کتاب ہنوز پڑھی جارہی ہے ۔ آج میں اسی کتاب کی چند اچھی اور نصیحت آموز باتیں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔

سبق آموز واقعات

اچھا انسان وہ ہوتا ہے ، جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے نصیحت پکڑتا ہے ۔وہ قصوں ، کہانیوں کو محض تفنن ِ طبع کے لیے نہیں پڑھتا ، بلکہ ان میں پنہاں سبق اور نصیحت پر عمل کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے ۔ دنیا کی سب سے سچی کتا ب اور اللہ تعالیٰ کے آخری صحیفہ ِ ہدایت میں حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کا پر عبرت قصہ بیان کر کے کہا گیا : "یقیناََ ان کے قصوں میں عقل مندوں کے لیے سامان ِ عبرت ہے۔"(سورۃ یوسف ، آیت نمبر 111) آج کی تحریر میں چند سبق آموز وقعات بیان کیے جائیں گے ۔ یہ واقعات اس لیے لکھے جارہے ہیں ، تاکہ سبق یا نصیحت حاصل ہو ۔ اس لیے کتابوں  کا حوالہ نہیں دیا جائے گا ۔ کیوں کہ نصیحت کے لیے سند کی اتنی حیثیت نہیں ہوتی ۔ 

اسلام کا ضابطہ ِ اخلاق

ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟اس کا جواب فی الوقت نہیں مل رہا ۔ اگر کوئی عام شخص اخلاق سے گری ہوئی بات کرے تو زیادہ افسوس نہیں ہوتا کہ وہ ہے ہی عام شخص ۔ مگر جب خواص بھی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے لگیں تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ جو کچھ حافظ حمد اللہ اور ماروی سرمد کے درمیان ہوا ہے ، وہ پہلی بار نہیں ہوا ہے ۔ یو ٹیوب ایسی وڈیو کلپس سے بھری پڑی ہے ، جو ہمارے خواص کے اخلاقی دیوالیہ پن کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا وہ ضابطہ اخلاق اپنائے ۔ جس کا درس اللہ  تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں ۔ہمارا دین اخلاق  کا سب سے بڑا داعی ہے ۔ آج کی تحریر میں ہم کسی حد تک اسلامی ضابطہ ِ اخلاق کا جائزہ لیتے ہیں :

بِاَىِّ ذَنبٍ قُتِلَتۡ

وطن ِ عزیز میں پے در پے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ، جن کا ہماری تہذیب و تمدن سے نہ کوئی واسطہ ہے ، نہ ہمارے دین سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔لگتا ہے ، عورت کی مظلومیت کا سلسلہ زمانہ ِ جاہلیت کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے ۔یہ سلسلہ ابھی تک نہیں ٹوٹا ۔ نہ جانے یہ کب ٹوٹے گا ۔پے در پے وطن ِ عزیز میں تین ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ، جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ یعنی لڑکیوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات ۔ہم نے سنا ہے ، ماؤں کے سینوں میں اولاد کی محبت سے لبریز دل دھڑکتے ہیں ۔ مگر یہ کیا ہو رہا ہے کہ ایک ماں اپنی سترہ سالہ بیٹی کو زندہ جلادیتی ہے ۔ سنا ہے ، باپ سارا دن محنت ہی اس لیے کرتا ہے ، تاکہ اس کی اولاد پروان چڑھے ، ان کی اچھی تربیت ہوسکے اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہوسکے ۔ مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک والد اپنی سگی بیٹی کو قتل کرکے خود کو پولیس کے حوالے کر رہا ہے ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے ۔ اس ماہ ِ مقدس میں مسلمانان ِ عالم ،اسلام کا ایک اہم رکن بڑے ذوق وشوق سے ادا کرتے ہیں ۔ روزہ اسلام کے پانچ اہم ارکان میں سے ایک ہے ۔اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر استوار ہے ، روزہ ان میں سے ایک انتہائی اہم ستون ہے ۔ صحیحین کی مشہور ِ زمانہ حدیث ہے: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔ اس امر کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ نماز پڑھنا ۔ زکٰوۃ دینا ۔ حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔" ـ (مشکوٰ ۃ المصابیح ، حدیث نمبر 3، راوی : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ)

بھارتی وزیر ِ اعظم کا اعتراف ِ حقیقت

اس میں شک نہیں کہ اسلام امن کا دین ہے ۔ اس دین میں پوری انسانیت کی بقا پنہاں ہے ۔  اس گئے گزرے دور میں یہی وہ دین ِ متین ہے ، جس میں انسانیت کے ہر مرض کی شفا ہے ۔ ہر دکھ کا درد اس دین میں موجود ہے ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت ہے ۔ اس دین میں دہشت گردی نہیں ہے ۔ مغرب اور اسلام مخالف لوگ جتنا چاہیں ، اس دین  ِ مبین سے دہشت گردی کو جوڑتے رہیں ، لیکن جن کے سامنے حقیقیت عیاں ہو جائے گی ، وہ پکار اٹھیں گے کہ بلا شبہہ دہشت گردی کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ  لوگ اس دین ِ مبین کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اہل ِ مغرب کو پریشان کر دیا ہے ۔ کئی مشہور لوگ اسلام قبول کر چکےہیں ۔ غیر مشہور لوگ نہ جانے کتنے ہیں ۔ یہ اسلام کا وہ اعجاز ہے ، جو اس کی حقانیت و صداقت کی  سب سے بڑی مثال ہے ۔

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

بارہ ربیع الاول

میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور محبت  کو عام کر دیتا ہوں  

یولو جیس کی جنونی تحریک کا احوال

اندلس کے چوتھے اموی سلطان عبد الرحمان دوم کے عہد ِ حکومت میں اندلس میں ایک عجیب و غریب جنونی تحریک کا آغاز ہوا ۔ اگر چہ بہت سے مورخین نے اس کو "مذہبی جنون" قرار دیا ہے ۔ مگر میں اسے "مذہبی جنون" نہیں ، بلکہ "جنونی تحریک" کہوں گا ۔ کیوں کہ کوئی مذہب اس طرح کے جنون کی اجازت نہیں دیتا ۔ اگر چہ اس جنون کو اپنانے والا کتنا ہی مذہب کا نام لے ۔ ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہو چکی ہے ۔ جب لوگ مذہب کے نام پر شدت کو اپناتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کو "مذہبی شدت پسند" قرار دے دیتے ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عام لوگ مذہب سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں  اور نا دانستہ طور پر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی مذہب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ دانشور طبقے کو چاہیے کہ مذہب کا نام لیتے ہوئے ذرا احتیاط سے کام لے۔

خطبہ ِ حج۔۔۔سانحہ ِ منیٰ

وقوف ِ عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نےخاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طورپر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی  گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے ۔ اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلا

الحمد للہ ۔۔الحمد للہ

رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا ۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا ۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے ۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی   کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سےبے ساختہ "الحمد للہ " کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ "الحمد للہ " کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں "۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے ۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے

درحقیقت کتابت ِ حدیث کا آغاز عہد ِ رسالت ماٰب ﷺ میں شروع ہو گیا تھا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ﷺ نے  نہ صرف  کتابت ِ حدیث کے کام کی حوصلہ افزائی کی ، بلکہ آپ ﷺ نے چند مواقع پر خود اپنی سرپرستی میں احادیث لکھوائیں ۔   رسول اللہ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھی گئیں چند احادیث کی کتابیں درج ذیل ہیں:  1۔ صحیفہ ِ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ 2۔ الصحیفۃ الصادقہ 3۔ کتاب الصدقہ ِ 4۔   صحیفہِ علی رضی اللہ عنہ  

اگر کوئی محمد ﷺ سے جلتا ہے ۔۔۔۔۔۔

بدھ کو پیرس سے شائع ہونے والے مزاحیہ سیاسی جریدے "چالی ہیبدو" کے دفتر پر حملہ  ہوا ۔ جس میں 10 صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 12 یا 14 افراد ہلاک ہوئے ۔ جب کہ 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ ہلاک شدگان میں چیف ایڈیٹر اسٹیفن کاربونئیر سمیت تین کارٹونسٹ بھی شامل ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق تین مسلح افراد صبح گیارہ یا ساڑھے گیارہ بجے کے قریب  میگزین کے دفتر میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ سکیورٹی گارڈز کی جوابی فائرنگ پر وہ ایک کار چھین کر بھاگنے لگے تو ایک راہگیر  کچلا گیا ۔ حملہ آوروں اور پولیس کے درمیان  فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح وہ سکیورٹی گارڈز  کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی چکمہ دینے میں کام یاب ہوگئے ۔ پولیس کے مطابق عینی شاہدین نے بتایا کہ حملہ آور راکٹ لانچر اور کلاشنکوف سے لیس تھے ۔ ان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا : ہم نے پیغمبر ِ اسلام کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ۔ یہ اللہ اکبر کے نعرے بھی لگا رہے تھے ۔ جائے وقوعہ  پر موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے نہایت اطمینا ن سے کا راوئی کی ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام لوگ نہیں

ذکر حبیب ﷺ ، بہ زبان ِ قرآن ِ حکیم

ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ذکر ِ خیر ہر ایک نے اپنے طریقے سے کیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو رسے لے کر آج تک رسو ل اللہ ﷺ کا ذکر ِ خیر اپنے اپنے طریقوں سے ہو رہا ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا ہے ۔ کہیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا تو کہیں آپ ﷺ کی صفت ِ رحمت کا تذکرہ کیا ہے ۔ ذیل میں ، میں چند آیات کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کا ذکر کیا ہے : 1۔ آج کا دور بڑا نازک دورہے ۔ اس نازک دور میں اسوہ ِ محمدی ﷺ کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ رحمت ِ عالم ﷺ کی سیرت سے ہر ایک روشنی لے سکتا ہے ۔ کیا مسلم ، کیا غیر مسلم ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں ارشاد فرمایا: "یقینا تمھارے لیے رسول اللہ (ﷺ) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کی یاد کرتا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر 21) اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ ِ حسنہ یعنی سنتوں پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالی ٰ نے بھی دیا ہے ۔ جس سے سنت کی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگا