اشاعتیں

بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں

وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔  لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرو

عوام سب کچھ سمجھ گئے

نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت  رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی  سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔  چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔

نج کاری کی کہانی

کسی ملک میں حکومت نے ایک ادارہ بنایا ۔ اس پر خوب محنت کی گئی ۔ اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خوب سرمایا لگایا گیا ۔ کیوں کہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا ۔ بڑے لوگ سمجھتے تھے کہ محنت کریں گے تو کچھ ہا تھ لگے گا ۔ سرمایہ خرچ ہوگا تو کچھ ملے گا۔ سو حکومت کی محنت رنگ لائی ۔ ادارہ بن گیا ۔ لوگ آتے گئے  اور کارواں بنتا گیا ۔یہ ادارہ کافی منافع بخش ثابت ہوا ۔ اس نے کئی لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ حل کیا ۔ کئی خاندانوں کو سہارہ دیا ۔ اس ادارے نے حکومت کو بھی فائدہ دیا، عوام کو بھی مالا مال کیا ۔ وجہ اس کا معیار تھا ۔ جس ادارے پر محنت کی جائے گی تو خود بہ خود اس کا معیار بن جائے گا ۔ یہ معیار ہی تھا کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو مشہور کر دیا ۔دیگر ممالک کے ادارے ، یہاں کے عملے سے مستفید ہونے لگے ۔ یوں اس ادارے نے  بہت سے ممالک کے دوسرے اداروں کو بنایا اور سنوا را ۔ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ملتا ہے ۔ بے شک ملتا ہے ۔ اس ادارے پر جس طرح محنت کی گئی ، اس محنت نے اس کو ہر جگہ سر خرو کر دیا ۔

کشمیر کا مسئلہ

بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ، جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔ بازارِ صحافت میں 5  اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس کے نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی وی پر اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ، سنا گیا ، لکھا گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ نظر رکھتے ہوئے مجھے کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام حالات ِ حاضرہ پر مبنی تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ، جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5 فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے فی الحقیقت تازہ سے تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔ بازار ِ صحافت کا اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔