اشاعتیں

نقل بھی ایک آرٹ ہے

جب سے ہمارے ہونہار طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوئےہیں ، اخبارات نے "پکڑے گئے" جیسے لاحقے والی خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں ۔ مثال کے طور پر،"اردو کے پرچے میں 24 طلبہ نقل کرتےہوئے پکڑے گئے " ، "حیاتیات کے پر چے میں 10 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے" وغیرہ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ایسی خبریں بالکل اچھی نہیں لگتیں اور اچھی لگنی بھی نہیں چاہئیں ۔ کیوں کہ ان خبروں سےہمارے ذہین ، ہو ش یار ، لائق اور ہونہار طلبہ و طالبات کی شرمندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ، مگر مستقبل کے معماروں کی ایسی بے عزتی ہر گز ۔۔ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔

لیاری والے

یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا  ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے  سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے ۔

اسلام یا سکیولر ازم؟

بلجیم کا دارالحکومت برسلز دھماکوں سے لرز اٹھا ۔ نتیجے میں 37 ہلاک  اور 200 زخمی ہوئے ۔ برسلز کا شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ نیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے  ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دوسرا نائین الیون ثابت ہوگا ۔  ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائے ۔ آمین  14 اگست ہو یا 23 مارچ یا کوئی اور قومی دن ہو ، نظریاتی بحث میں الجھنا ہمارے دانش وروں کی عادت بن چکی ہے ۔ نظریاتی جنگ بھی بہت بڑی جنگ ہوتی ہے ۔ اس سے انسانوں کا خون تو نہیں بہتا ۔ البتہ نفرتیں ضرور پروان چڑھتی ہیں۔ہم کئی اقسام میں منقسم ہیں ۔ اس لیے آج کل ہمیں قوم نہیں ، بلکہ جتھا یا ریوڑ کہا جاتا ہے ۔ان دنوں فرقہ وارانہ بحث سے زیادہ "اسلام یا سکیولر ازم" پر بحث ہوتی ہے ۔  

بھارتی وزیر ِ اعظم کا اعتراف ِ حقیقت

اس میں شک نہیں کہ اسلام امن کا دین ہے ۔ اس دین میں پوری انسانیت کی بقا پنہاں ہے ۔  اس گئے گزرے دور میں یہی وہ دین ِ متین ہے ، جس میں انسانیت کے ہر مرض کی شفا ہے ۔ ہر دکھ کا درد اس دین میں موجود ہے ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت ہے ۔ اس دین میں دہشت گردی نہیں ہے ۔ مغرب اور اسلام مخالف لوگ جتنا چاہیں ، اس دین  ِ مبین سے دہشت گردی کو جوڑتے رہیں ، لیکن جن کے سامنے حقیقیت عیاں ہو جائے گی ، وہ پکار اٹھیں گے کہ بلا شبہہ دہشت گردی کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ  لوگ اس دین ِ مبین کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اہل ِ مغرب کو پریشان کر دیا ہے ۔ کئی مشہور لوگ اسلام قبول کر چکےہیں ۔ غیر مشہور لوگ نہ جانے کتنے ہیں ۔ یہ اسلام کا وہ اعجاز ہے ، جو اس کی حقانیت و صداقت کی  سب سے بڑی مثال ہے ۔

پانی کا بحران

پانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 سے لگایا جا سکتا ہے ۔  اس آیت ِ مقدسہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر جا ن دار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ تو کیا پھر یہ ایمان نہیں لائیں گے ؟"اس کے علاوہ بھی قرآن ِ حکیم کی بہت ساری آیات ِ مبارکہ میں زندگی کی اس بنیادی ضرورت کا ذکر آیا ہے ۔ ان آیات کی رشنی میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے ۔ اس عظیم نعمت ِ خداوندی سے نہ صرف انسانوں کی زندگی وابستہ ہے ، بلکہ دیگر جاندار بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ یعنی ہر جاندار کے بنیادی خمیر میں پانی رکھ دیا گیا ہے ۔ اب بغیر پانی کے یہ جان دار کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ 

نا انصافی

قوموں کی نوک پلک سنوارنے میں انصاف اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا ۔ یوں ہی نہیں کہا گیا کہ   کفر پر قائم حکومت   زندہ رہتی ہے ، جب کہ ظلم اور نا انصافی پر قائم حکومت اپنا وجود کھو دیتی ہے ۔ کسی بھی حکومت کے لیے انصاف قائم کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ۔ انصاف کیا ہے ؟ انصاف یہ ہے کہ سب کے حقوق کی پاس داری کی جائے ۔ کسی کو کم تر نہ سمجھا جائے ۔ سزا سب کے لیے یک ساں ہو ۔ اگر کوئی امیر جرم کرے تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے ، جو غریب کواسی جرم کے کرنے پر دی جاتی ہے ۔ اگر کوئی حکومت نا انصافی کرتی ہے ، تو وہ عوام سے زیادہ اپنا نقصان کرتی ہے ۔ کیوں کہ عوام ایسی حکومت کو پسند ہی نہیں کرتی ، جو انصاف نہ کرے ۔ اور کبھی کبھا ر عوام کی یہی نا پسندیدگی  حکومت کے لیے وبال ِ جاں بن جاتی ہے ۔ زیرک اور عقل مند حکم ران وہی ہوتا ہے ، جو سب کو دیکھ کر چلتا ہے اور حتی الامکان اپنی راج دھانی میں انصاف پر مبنی نظام ِ حکومت کو فروغ دینے کے لیے  مصروف ِ عمل رہتا ہے ۔

بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں

وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔  لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرو