اشاعتیں

قرآن ِ حکیم کےریاضیاتی اعجازات

قرآن ِ مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ، جو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ، لہٰذا اس جیسا کلام لانا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 88 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو ایسا نہیں لا سکتے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو۔" سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : "اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ، اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو۔" یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سورۃ الاسراء مکی سورت ہے ، جب کہ سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے ۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ قرآن ِ حکیم جیسا دوسرا کلام لانا نا ممکن ہے ۔ پھر کہا گیا کہ پورا کلام لانا تو درکنار ، اس جیسی ایک

عمدہ اخلاق قرآن ِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں

اسلام کو سمجھنے کے دو بنیادی ذرائع ، قرآن حکیم اور احادیث ِ مبارکہ ہیں ۔ یعنی کتاب و سنت ۔ اگر ہم ان دونوں ذرائع کا بہ خوبی مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم ، آج کل کے اس مادی دور میں ، شاید ہی عملی مسلمان ہوں ۔ 'عملی' کیا ، ہم تو'علمی' مسلمان بھی  نہیں رہے ۔یعنی ہم اپنے دین کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔ جب جانتے ہی نہیں ہیں ، تو عمل کیوں کر ہوگا ۔ ایک دور تھا ، جب عوام کے لیے اسلامی تعلیمات کو سمجھنا از حد مشکل تھا ۔ لیکن اب سچے علما کی محنتوں اور کوششوں سے یہ مشکلا ت خاصی آسان ہو گئی ہیں ۔جدید دور نے اور بھی آسانیاں پیدا کرد ی ہیں ۔ عام لوگ عربی نہیں سمجھتے ، لیکن اردو سمجھ لیتے ہیں ۔ قرآن ِ حکیم اور احادیث ِ مبارکہ کے آسان ترجمہ شدہ نسخے آسانی سے بازار میں مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی ویب سائٹیں بھی بن چکی ہیں ، جن کی مدد سے ہم بہ آسانی دین ِ اسلام کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ذوق و شوق کی ضرورت ہے ، جو فی الوقت ہماری قوم میں معدوم ہے ۔ 

نصیحت آموز باتیں

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں  کہ جن کو ایک بار پڑھا جائے تو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ایسی ہی کتاب میری نظروں سے گزری ۔ اس کتاب کو سرسری طور پر دیکھا تو یہ ایک نصیحت آموز کتاب تھی ۔ اس میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بزرگان ِ دین کی نصیحتیں تھیں ۔ میرا ماننا ہے کہ جو کتاب جنتے زیادہ خلوص کے ساتھ لکھی جائے گی ، اس کی قدر واہمیت اسی قدر زیادہ ہوگی ۔وہ اسی قدر شہرت حاصل کرے گی ۔ مذکورہ بالا کتاب  کے مولف نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم ہیں ۔ یہ بزرگ اور عالم ِ دین الفقیہ ابو اللیث سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کا انتقال سن 373 ہجری میں ہوا تھا ۔ کتاب  کانام "تنبیہ الغافلین " ہے ۔ غور کریں کہ مولف کے انتقال کو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، لیکن ان کی کتاب ہنوز پڑھی جارہی ہے ۔ آج میں اسی کتاب کی چند اچھی اور نصیحت آموز باتیں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔

نائین الیون نے کیا دیا؟

9/11 کا واقعہ 2001ء میں پیش آیا ۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2750 لوگ نیو یارک میں ، 184 پینٹاگون میں اور 40 لوگ پینسلوانیا میں ہلاک ہوئے ۔ امریکا نے ان دھماکوں کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار دیا۔ یہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ بھیانک ترین اور موت آور دھماکے سمجھے جاتے ہیں ۔ یہ دراصل چار فضائی حملے تھے ۔ واضح رہے کہ جن طیاروں سے یہ حملے کیے گئے ، وہ امریکا کے اغوا شدہ طیارے تھے ۔ 11 ستمبر کو صبح آٹھ بجے ایک طیارہ امریکا کی بلندو بالا عمارت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرایا ۔ اٹھارہ منٹ بعد تباہ شدہ عمارت کے قریب ، دوسری عمارت سے دوسرا طیارہ ٹکرایا ۔ ایک گھنٹے بعد تیسرا اغوا شدہ طیارہ پینٹا گون پر گرایا گیا ۔ آدھے گھنٹے بعد پنسلوانیا میں ان حادثات سے ملتا جلتا ایک حادثہ پیش آیا ۔ اس عظیم واقعے نے عالمی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ۔ دراصل یہی وہ عظیم واقعہ ہے ، جس سے پورے عالم میں صحیح طور پر امریکی برتری کا آغاز ہوا ۔ اس لیے اس واقعے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دن ہونے والے چار حادثات میں لگ بھگ 2974 لوگ ہلاک ہوئے ، لیکن ان 2974 لوگوں کی ہلاکت کے بدلے میں امریکا

چودہ اگست کا پیغام

14 اگست 1947ء کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرض ِ وجود میں آیا۔ یہ وہ عظیم دن ہے ، جس دن مسلمانان ِ ہند کو آزادی ملی ۔ آزادی کی اس تحریک میں بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ ، شاعر ِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، سرسید احمد خان ، نواب محسن الملک ، نواب وقارالملک ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی جوہر ، اے کے فضل الحق ، چوہدری رحمت علی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے قائدین کی انتہائی اہم خدمات ہیں ۔ جو خواب حکیم الامت ، شاعر ِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تھا ، بابائے قوم قائد ِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو شرمندہ ِ تعبیر کیا ۔ پاکستان کی بنیاد "دو قومی نظریہ" پر رکھی گئی تھی ۔ اس نظریے کے بانی سر سید احمد خان تھے ۔ سر سید احمد خان کے قائم کردہ علی گڑھ کالج کے طالب علموں نے تحریک ِپاکستان میں انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں ۔ اس طرح مسلمانان ِ ہند کی آزادی میں سر سید احمد خان نے اہم کردار ادا کیا  تھا ۔

مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں

کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں  کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔

کشمیر کا لہو

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے لے کر اب تک وادی ِ کشمیر لہو لہان ہے ۔یہ وادی اکثر و پیشتر لہو لہان ہوتی رہتی ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ جو کچھ ہو رہا ہے ، پہلے بھی ہوتا رہا ہے ۔اس وادی کے بار بار سلگنے کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔ اگر اس دفعہ پچاس سے زائد لوگ شہید اور کئی سو لوگ زخمی ہوگئے تو کیا ہوگیا ۔ جو چیز بار بار ہوتی آرہی ہے ، اس پر احتجاج ، واویلا ، غصہ ، اقوام ِ متحدہ میں آواز اور یوم ِ سوگ کا کیا فائدہ ! ہاں ، اثرات نظر آئیں تو پھر چیخ و پکار بھی ہونی چاہیے ، شور بھی ہونا چاہیے ، احتجاج کی ہڑبونگیں بھی ہونی چاہئیں ۔ اقوام ِ متحدہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے اور یوم ِ سوگ بھی منانا چاہیے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری ان 'حرکات ' سے کشمیر کے منظر نامے میں ذرا سی تبدیلی بھی واقع نہیں ہوئی ۔ ظلم اسی طرح جاری ہے ۔تشدد کا اسی طرح عروج ہے ۔ وادی اسی طرح اداس ہے ۔