اشاعتیں

معاشرتی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پانی کا بحران

پانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 سے لگایا جا سکتا ہے ۔  اس آیت ِ مقدسہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر جا ن دار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ تو کیا پھر یہ ایمان نہیں لائیں گے ؟"اس کے علاوہ بھی قرآن ِ حکیم کی بہت ساری آیات ِ مبارکہ میں زندگی کی اس بنیادی ضرورت کا ذکر آیا ہے ۔ ان آیات کی رشنی میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے ۔ اس عظیم نعمت ِ خداوندی سے نہ صرف انسانوں کی زندگی وابستہ ہے ، بلکہ دیگر جاندار بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ یعنی ہر جاندار کے بنیادی خمیر میں پانی رکھ دیا گیا ہے ۔ اب بغیر پانی کے یہ جان دار کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ 

نا انصافی

قوموں کی نوک پلک سنوارنے میں انصاف اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا ۔ یوں ہی نہیں کہا گیا کہ   کفر پر قائم حکومت   زندہ رہتی ہے ، جب کہ ظلم اور نا انصافی پر قائم حکومت اپنا وجود کھو دیتی ہے ۔ کسی بھی حکومت کے لیے انصاف قائم کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ۔ انصاف کیا ہے ؟ انصاف یہ ہے کہ سب کے حقوق کی پاس داری کی جائے ۔ کسی کو کم تر نہ سمجھا جائے ۔ سزا سب کے لیے یک ساں ہو ۔ اگر کوئی امیر جرم کرے تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے ، جو غریب کواسی جرم کے کرنے پر دی جاتی ہے ۔ اگر کوئی حکومت نا انصافی کرتی ہے ، تو وہ عوام سے زیادہ اپنا نقصان کرتی ہے ۔ کیوں کہ عوام ایسی حکومت کو پسند ہی نہیں کرتی ، جو انصاف نہ کرے ۔ اور کبھی کبھا ر عوام کی یہی نا پسندیدگی  حکومت کے لیے وبال ِ جاں بن جاتی ہے ۔ زیرک اور عقل مند حکم ران وہی ہوتا ہے ، جو سب کو دیکھ کر چلتا ہے اور حتی الامکان اپنی راج دھانی میں انصاف پر مبنی نظام ِ حکومت کو فروغ دینے کے لیے  مصروف ِ عمل رہتا ہے ۔

بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں

وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔  لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرو

عوام سب کچھ سمجھ گئے

نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت  رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی  سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔  چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔

نج کاری کی کہانی

کسی ملک میں حکومت نے ایک ادارہ بنایا ۔ اس پر خوب محنت کی گئی ۔ اس کی نوک پلک سنوارنے کے لیے خوب سرمایا لگایا گیا ۔ کیوں کہ روزی روٹی کا مسئلہ تھا ۔ بڑے لوگ سمجھتے تھے کہ محنت کریں گے تو کچھ ہا تھ لگے گا ۔ سرمایہ خرچ ہوگا تو کچھ ملے گا۔ سو حکومت کی محنت رنگ لائی ۔ ادارہ بن گیا ۔ لوگ آتے گئے  اور کارواں بنتا گیا ۔یہ ادارہ کافی منافع بخش ثابت ہوا ۔ اس نے کئی لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ حل کیا ۔ کئی خاندانوں کو سہارہ دیا ۔ اس ادارے نے حکومت کو بھی فائدہ دیا، عوام کو بھی مالا مال کیا ۔ وجہ اس کا معیار تھا ۔ جس ادارے پر محنت کی جائے گی تو خود بہ خود اس کا معیار بن جائے گا ۔ یہ معیار ہی تھا کہ اس نے بین الاقوامی سطح پر اس ادارے کو مشہور کر دیا ۔دیگر ممالک کے ادارے ، یہاں کے عملے سے مستفید ہونے لگے ۔ یوں اس ادارے نے  بہت سے ممالک کے دوسرے اداروں کو بنایا اور سنوا را ۔ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ملتا ہے ۔ بے شک ملتا ہے ۔ اس ادارے پر جس طرح محنت کی گئی ، اس محنت نے اس کو ہر جگہ سر خرو کر دیا ۔

کشمیر کا مسئلہ

بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ، جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔ بازارِ صحافت میں 5  اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس کے نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی وی پر اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ، سنا گیا ، لکھا گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ نظر رکھتے ہوئے مجھے کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام حالات ِ حاضرہ پر مبنی تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ، جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5 فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے فی الحقیقت تازہ سے تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔ بازار ِ صحافت کا اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔

غربت کی ایک بڑی وجہ اور اس کا سد ِ باب

ان دنوں سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان  'مک مکا ' کا میچ جاری ہے۔ جب کہ خیبر پختون خوا کی حکومت اس میچ کے انجام کی بڑی شدت سے منتظر ہے ۔ ہمارے وفاقی وزیر ِ داخلہ پچھلے کچھ دنوں سے بیمار تھے ۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا کہ قائد ِ حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاقی حکومت سے مک مکا کیا تھا ۔ دوسری طرف ہمارے قائد ِ حزب اختلاف بھی بڑی جوشیلی طبیعت کے مالک ہیں ۔ انھوں نے چوہدری صاحب کو وزیر ِ اعظم کے آستینوں کے سانپوں میں سے ایک سانپ کہہ دیا ۔ تیسری طرف خان صاحب کو موقع مل گیا ۔ انھوں نے مک مکا کی قیمت کی  بابت دریافت کر لیا ۔انھوں نے سوال کر دیا کہ حکومت نے خورشید شاہ کو خریدنے کے لیے کتنی قیمت ادا کی ؟بہر حال ایک عجیب تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ تناؤ دو طرفہ نہیں ، سہ طرفہ ہے ۔ 'مک مکا' فی الوقت پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ہے ۔ کالم نگار کی حیثیت سے مجھے بھی حالات ِ حاظرہ  کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے 'مک مکا' پر لکھنا چاہیے ۔ لیکن اس ساری صورت حال کے باوجود میں جان بوجھ کر آج کے کالم میں کوئی اور موضوع اٹھا رہا ہوں

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

ڈی ایف اے ساؤتھ کی مثبت پیش رفت

کسی پس ماندہ علاقے سے مثبت خبر آئے تو اس کی ضرور تشہیر کرنی چاہیے ۔ غریب کی بستی میں روٹی تقسیم ہورہی ہو تو خوب ڈھنڈورا پیٹنا چاہیے ۔ جہاں سے ہر وقت منفیت کی گونج سنائی دے ، اگر وہاں سے اثبا ت کی تھوڑی سی مہک بھی محسوس ہو ، اسی وقت سارے عالم کو بتا دینا چاہیے ۔ تاکہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو ، جو یہ کار  ہائے خیر سر انجام دے رہے ہوں ۔ ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی مثبت خبر کو موضوع ِ سخن بناؤں ، لیکن یہ کوشش ہمیشہ نہیں تو اکثر اکارت جاتی ہے ۔ اب تو ہمارے لوگ بھی ایسے موضوعات پسند کرنے لگے ہیں ، جن میں مہنگائی کا رونا ہو ، غربت کی دہائی ہو ، لاشوں کے سانحے ہوں ، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا مصالحہ ہو  یا ان موضوعات سے ملتا جلتا کوئی موضوع ہو ۔ 

دس مہینے کی بچی

بابا کی محفل میں سکوت ِ مرگ چھایا ہوا تھا ۔ وہ خود بھی خاموش تھے ، ان کی مرید بھی چپ تھے ۔ بابا کی محفلیں اکثر و بیشتر تبسم بانٹتی تھیں ۔ جو بھی یہاں آتا ، خوش وخرم ہو جاتا ۔ مگر کبھی کبھار سکوت چھا جاتا ۔ خاموشی اس محفل کو ہر طرف سے گھیر لیتی تھی ۔ یہ اسی وقت ہوتا ، جب کوئی جاں کاہ حادثہ پیش آتا ۔ جب انسانوں کا خون ہوتا تو بابا سمیت اس کے مریدین اداس ہو جاتے ۔ بابا ایسے واقعات کے بعد تبصرے بھی کرتے ، جو بڑے پر مغز ہوتے ۔ ان کے مریدین ان کی باتوں سے مستفید ہوتے ۔ آج کا سکوت بھی یہ بتا رہا تھا کہ کسی کاخون ہوگیا ہے ۔ تبھی تو یہ سب خاموش بیٹھے تھے ۔ جی ہاں ، ایک ایسی بچی کا انتقال ہو گیا تھا ، جس نے اپنی عمر کی پہلی بہار بھی نہیں دیکھی تھی ۔ بچے تو روز ہی مرتے ہیں، مگر یہ دس ماہ کی بچی جس وجہ سے مری تھی ، اس وجہ نے بابا کو سخت ملول کر دیا تھا ۔ بابا کا اداسی بتا رہی تھی کہ اس واقعے نے انھیں غم زدہ کر دیا ہے ۔ 

بارہ ربیع الاول

میرے آنے سے قبل ہر طرف خوشیاں چھا جاتی ہیں ۔ لوگ مسرور ہوتے ہیں ۔فضاؤں میں نعتوں کے زمزمے گونجتے ہیں ۔ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے اپنے آقا علیہ السلام سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ میں آتا ہوں تو سب کو خوش کردیتا ہوں ۔ میرے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ میرے آنے پر اخبارات رنگ برنگے ایڈیشن شائع کرتے ہیں ۔ میگزینوں کے سر ِ ورق روضہ ِ رسول ﷺ سے سج جاتے ہیں ۔ ٹی وی پرگراموں میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ گلی محلوں میں سیرت کے جلسے اور نعتوں کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں ۔۔ سب کا ذوق دیدنی ہوتا ہے ۔میں سب کو خوش کر دیتا ہوں ۔ خزاں کو بہار کر دیتا ہوں ۔ عقیدت اور محبت  کو عام کر دیتا ہوں  

جیالا

ہر طرف گہما گہمی تھی، کیوں کہ انتخابات قریب تھے ۔سرکار کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا تھا ۔ لوگ شدت سے انتخابات کے دن کا انتظار کر رہے تھے ۔ من چلے نوجوان بڑے جوش و خروش سے اپنی پارٹی کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس کے لیے انھوں نے جھنڈے اور کارڈ وغیرہ لے رکھے تھے ۔ انتخابات ہونے میں کچھ دن رہتے تھے ۔ دلچسپیاں بڑھتی جارہی تھیں ۔ نعرے بازیاں عام ہورہی تھیں ۔ کبھی دن ڈھلے ، کبھی سر ِ شام اور کبھی رات کو ۔ پارٹی کے سربراہان کے جذبات بھی قابل ِ دید تھے ۔ جہاں آتے ، مخالف پارٹیوں  کی خوب دھجیاں اڑاتے ۔ عوام کو سبز باغ دکھاتے ۔ ان کے بیانات سے یوں لگتا تھا ، جیسے انتخابات کے بعد واقعی سب کچھ بدل جائے گا ۔ غربت ختم ہوجائے گی ۔اداسیاں روٹھ جائیں گی ۔ زرد چہرے خوشی سے تمتما اٹھیں گے ۔ دہشت گردی اور قتل وغرت گری کبھی نہیں ہوگی ۔ عوام ایک گیلن پانی کے لیے سڑکوں سڑکوں نہیں بھٹکیں گے ۔ مہنگائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ غرض ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی ۔ بہاریں ہی بہاریں ہوں گی ۔بوڑھے پیشین گوئیاں کر نے میں مصروف تھے ۔یعنی ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ کون جیتےگا اور کون ہارے گا ۔ اس ضمن میں

پاکستان میں بھارتی نصاب

نوجوان  کی ساری تعلیم پاکستان کی تھی ۔ اس وقت بھی وہ پاکستان کی ایک اعلا درس گاہ میں زیر ِ تعلیم تھا ۔ وہ قانون دان بننا چاہتا تھا ۔ اس لیے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔ وہ اعلا تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔کبھی ملک سے باہر نہیں گیا تھا ۔ ہمیشہ یہیں رہا ۔ یہیں کی چیزیں کھائیں ۔ یہیں کا پانی پیا ۔ یہیں پلا بڑھا ۔اس کے آباء و اجداد پچھلے کئی سو سالوں سے پاکستان  کی سرزمین پر رہ رہے تھے ۔ کتنے سو سالوں سے ؟ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا  تو میرے پاس کیا ہو گا ۔ یعنی کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس کے باپ دادا ہجرت کرکے پاکستان نہیں آئے تھے ۔  اس کے سارے دوست بھی یہیں کے تھے ۔ ہو سکتا ہے ، کبھی کبھا ر اسے انڈیا اور دیگر ملکوں کے لوگ انٹرنیٹ پر مل جاتے ہوں ۔ اس کے علاوہ اس کا تعلق کبھی بھی انڈیا یا کسی ملک سے نہیں رہا ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ نوجوان سو فی صد نہیں تو ننانوے فی صد پاکستانی تھا ۔

بڈھ بیر کا سانحہ

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن  کو پاکستان میں ایک اور سانحہ ہوا ۔ پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور 29 زخمی ہو گئے ۔ جب کہ دوسری طرف 13 حملہ آور ہلاک کر دیے گئے ۔ حملہ آور وں نے ایف سی کی وردیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ یہ حملہ آور فجر کے وقت کیمپ میں داخل ہو ئے ۔ انھوں نے آتے ہی مسجد میں موجود نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی ۔ فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بموں سے حملہ بھی کیا ۔ جس کی وجہ سے 16 نمازی شہید اور 10 زخمی ہو گئے ۔ پھر پاک فوج کے جوانوں اور حملہ آوروں کے درمیان دست بدست لڑائی شروع ہوگئی۔  حملہ آوروں کے عزائم خطر ناک تھے ۔ وہ پاک فضائیہ کے افسران کے گھروں تک پہنچ کر ان کے بچوں کو یر غمال بنانا چاہتے تھے ۔ اگر پاک سکیورٹی فورسز کے جوان بر وقت کارروائی نہ کرتے تو شاید یہ حملہ آور اپنے مقاصد میں کام یاب ہو جاتے ۔ قدرے توقف کے بعد کوئیک ریسپانس فورس کے دستوں نے پہنچ کر پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ۔ اور حملہ آوروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا ۔

"کس قوم کو للکارا ہے؟"

6 ستمبر 1965 ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔  کیوں کہ  آ ج سے ٹھیک پچاس سال قبل اس دن پاکستان نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو شکست دے دی تھی ۔ پوری دنیا ورطہ ِ حیرت میں تھی کہ پاکستان نے اتنا بڑا کا م کیسے کر دیا ۔  کیوں کہ بھارت ہم سے ہر لحاظ سے بہتر تھا ۔  اس کے پاس فوج بھی زیادہ تھی ۔ اسلحہ بھی زیادہ تھا ۔ لیکن اس کے  باوجود وہ پاکستان کے ایک علاقے پر بھی قبضہ نہ کر سکا ۔ اسے ہر جگہ منھ کی کھانی پڑی ۔ 17 دنوں تک جنگ جاری رہی ۔ بالآخر پاکستان کو فتح حاصل ہو گئی ۔یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ بعض شعبے ایسے بھی تھے جس  میں بھارت ہم پر 11 گنا برتری کا حامل تھا ۔پاکستان نے مصلحت کا ثبوت دیتے ہوئے اس جنگ میں پہل کرنے سے گریز برتا ۔ یہ بھارت تھا ، جس نے جنگ میں پہل کرتے ہوئے زندہ ولوں کے شہر لاہور پر دھاوا بول دیا ۔ مگر اس کے قبضے کی کوشش نا کام ہو گئی ۔   

قصور اسکینڈل ۔۔۔ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟؟

میرے سامنے قصور اسکینڈل اپنی تما م تر ہیبت اور وحشیانہ منظر کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ میں اس منظر سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں ۔ اس خبر سے دور بھاگنا چاہتا ہوں ۔ لیکن یہ کام  بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ ارادہ تھا  کہ یوم ِ آزادی پر لکھوں گا ۔ اپنے پڑھنے والوں کو کچھ تاریخی واقعات کی سیر کراؤں گا ۔ لیکن ایسا نہیں کر سکتا ۔ مجھے طوعا کرہا بابا بلھے شاہ کے قصور میں ہونے والے وحشیانہ سانحے پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا ۔ اس بھیانک واقعے سے راہ ِ فرار اختیا ر کرنا میرے مشکل  کیا ، نا ممکن ہو چکا ہے ۔ 

الحمد للہ ۔۔الحمد للہ

رات کے گہرے سناٹے میں اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ کبھی دائیں کروٹ لیتا اور کبھی بائیں طرف مڑ جاتا ۔ دراصل اس کا ذہن منتشر تھا ۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے ۔ وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا ، لیکن سو نہیں پا رہا تھا ۔ذہن خیالات کی آماج گاہ بن جائے تو نیند کہاں سے آتی ہے ۔ کچھ دیر بعد اسے پیاس محسوس ہوئی ۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا ، فریج کے پاس گیا ، وہاں سے ٹھنڈے پانی   کی بوتل نکالی ، گلاس میں اپنی ضرورت کے مطابق پانی انڈیلا اور پی لیا ۔ پانی پینے کے بعد اس کی زبان سےبے ساختہ "الحمد للہ " کا کلمہ ِ خیر نکلا ۔ اس کلمہ ِ خیر نے اس کی سوچ کا زاویہ یک سر تبدیل کر دیا ۔ وہ "الحمد للہ " کے بار ے میں سوچنے لگا ۔ ویسے الحمد للہ کا مطلب ہوتا ہے ، "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں "۔ لیکن یہ ایک کلمہ ِ شکر ہے ۔ جو ایک مسلمان اس وقت ادا کرتا ہے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا احساس ہوتا ہے ۔

"اسلام نافذ ہو گیا ۔۔۔۔"

"پیارے بھائیو! اب ہم اس ملک کے چپے چپے پر اسلام کا نفاذ کریں گے ۔اس کے لیے ہمیں جان دینی پڑے تو دے دینی چاہیے ۔ اسلام قربانی مانگتا ہے ۔ اگر ہم قربانی نہیں دیں گے تو کون دے گا ۔ سو اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام کا علم اٹھا کر دشمنوں کی صفوں میں گھس جائیں ۔ یہ صرف نام کا اسلامی ملک ہے ۔ یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ یہ مرتد ہو چکے ہیں ۔ انھیں مارنا فرض ہو چکا ہے ۔ یہ ہمارے بھائی نہیں ہو سکتے ۔ کیوں کہ یہ ہمارے دشمنوں کو دوست بناتے ہیں ۔ قرآن  جنھیں ہمارا دشمن کہتا ہے ، وہ ہمارے دوست کیوں کر ہو سکتے ہیں ؟ اس لیے اب یہ بھی ہمارے بد ترین دشمن ہیں ، جن سے انتقام لینا از حد ضروری ہے ۔ "

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنان ِ بہشت !

اے شہر ِ بے اماں کے مرحوم ساکنانِ بہشت ! میرے دامن میں ایسا کچھ نہیں ہے ، جو میں تمھاری نذر کر سکوں ۔ سوائے چند الفاظ کے ۔ میں کوئی سیاست دان نہیں ، جو بیان بازیاں کروں ۔ کوئی سکہ بند شاعر نہیں جو قافیوں پر قافیے ملا کر تمھارے لیے کوئی مرثیہ نظم کروں ۔ فقیہ ِ وقت نہیں کہ فتوے رقم کروں ۔ واعظ ِ شہر نہیں کہ تمھاری مدح میں وعظ کر کے خلقت کا دل لبھا سکوں ۔ میں ایک چھوٹا سا قلم کار ہوں۔ سو میری آج کی  تحریر کے سارے الفاظ تمھارے لیے وقف ہیں ۔ اسے تم میرے دل کی آواز کہو یا اپنے لیے خراج ِ عقیدت ۔ یہ تم پر انحصار کرتا ہے ۔ 

صفورہ چوک کا سانحہ

جمعرا ت کو پھر ایک دل دہلا دینے والی خبر پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ میرے شہر کراچی کو پھر خون میں نہلا دیا گیا ۔ بس کے اندر گھس کر ایک مخصوص کمیونٹی  پر فائرنگ کی گئی ۔ جس کے نتیجے میں 18 خواتین سمیت 45 جاں بحق ہو گئے ۔ یہ اندوہ ناک سانحہ صفورہ چورنگی کے قریب پیش آیا ۔ بد قسمت بس بدھ کی صبح ساڑھے 9 بجے الاظہر گارڈن سے عائشہ منزل جماعت خانے کے لیے روانہ ہوئی  تھی ۔ مگر راستے میں ہی نشانہ بنا دی گئی ۔ 55 مسافروں میں سے 45 اس جہاں سدھارے ۔ داد دیجیے بس کے زخمی کنڈکٹر کو ۔ وہ زخمی تھا ۔ مگر پھر بھی ہمت کر کے اٹھا اور بس کو ایک نجی اسپتال تک لے گیا ۔ بلا شبہ یہ کنڈیکٹر قابل ِ تعریف ہے ۔ پاکستانی قوم میں ایثار بہت ہے ۔ جذبہ قربانی بھی بہت ہے ۔ایسے مواقع پر یہ جذبہ مزید اپنے رنگ دکھاتا ہے ۔