اشاعتیں

لیاری والے

یہ کوئی چودہ پندرہ سال کا بچہ ہوگا ۔جو چند معزز مہمانوں کے سامنے انگریزی میں تقریر کر رہا تھا ۔ بچہ فر فر بول رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا ، جیسے انگریزی اس کی مادری زبان ہے ۔ وہ علم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا ۔ اس کی تقریر ختم ہوئی تو اس کے استاد نے دوبارہ تقریر کرنے کا حکم دیا  ۔ کیوں کہ اس کے استاد نے اس کی تقریر نہیں سنی تھی ۔ بچے نے دوبارہ تقریر کی ۔ لیکن تغیر و تبدل کے ساتھ ۔ جس سے واضح ہو گیا کہ بچہ کچھ حد تک فی البدیہہ تقریر کر رہا تھا ۔ اس نے کسی انگریزی کتاب یا کسی ویب سائٹ سے  سو فی صد تقریر نہیں رٹی تھی ۔ بلکہ بہت ساری باتیں اس کی اپنی تھیں ۔ بچے نے تقریر میں ولیم شیکسپئیر اور نیلسن منڈیلا کے اقوال بھی حاضرین کا بتائے ۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ بچے کا مطالعہ بھی وسیع ہے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بچہ لیاری کے ایک غیر معروف پرائیویٹ اسکول میں جماعت ِ ہفتم کا طالب ِ علم ہے ۔

اسلام یا سکیولر ازم؟

بلجیم کا دارالحکومت برسلز دھماکوں سے لرز اٹھا ۔ نتیجے میں 37 ہلاک  اور 200 زخمی ہوئے ۔ برسلز کا شہر اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ یہ نیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے  ۔ مبصر کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ دوسرا نائین الیون ثابت ہوگا ۔  ہماری دعا ہے کہ ایسا نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ امت ِ مسلمہ پر رحم فرمائے ۔ آمین  14 اگست ہو یا 23 مارچ یا کوئی اور قومی دن ہو ، نظریاتی بحث میں الجھنا ہمارے دانش وروں کی عادت بن چکی ہے ۔ نظریاتی جنگ بھی بہت بڑی جنگ ہوتی ہے ۔ اس سے انسانوں کا خون تو نہیں بہتا ۔ البتہ نفرتیں ضرور پروان چڑھتی ہیں۔ہم کئی اقسام میں منقسم ہیں ۔ اس لیے آج کل ہمیں قوم نہیں ، بلکہ جتھا یا ریوڑ کہا جاتا ہے ۔ان دنوں فرقہ وارانہ بحث سے زیادہ "اسلام یا سکیولر ازم" پر بحث ہوتی ہے ۔  

بھارتی وزیر ِ اعظم کا اعتراف ِ حقیقت

اس میں شک نہیں کہ اسلام امن کا دین ہے ۔ اس دین میں پوری انسانیت کی بقا پنہاں ہے ۔  اس گئے گزرے دور میں یہی وہ دین ِ متین ہے ، جس میں انسانیت کے ہر مرض کی شفا ہے ۔ ہر دکھ کا درد اس دین میں موجود ہے ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت ہے ۔ اس دین میں دہشت گردی نہیں ہے ۔ مغرب اور اسلام مخالف لوگ جتنا چاہیں ، اس دین  ِ مبین سے دہشت گردی کو جوڑتے رہیں ، لیکن جن کے سامنے حقیقیت عیاں ہو جائے گی ، وہ پکار اٹھیں گے کہ بلا شبہہ دہشت گردی کا اس دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وہ  لوگ اس دین ِ مبین کی طرف کھنچتے چلے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اہل ِ مغرب کو پریشان کر دیا ہے ۔ کئی مشہور لوگ اسلام قبول کر چکےہیں ۔ غیر مشہور لوگ نہ جانے کتنے ہیں ۔ یہ اسلام کا وہ اعجاز ہے ، جو اس کی حقانیت و صداقت کی  سب سے بڑی مثال ہے ۔

پانی کا بحران

پانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس کا اندازہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30 سے لگایا جا سکتا ہے ۔  اس آیت ِ مقدسہ میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "اور ہم نے ہر جا ن دار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ تو کیا پھر یہ ایمان نہیں لائیں گے ؟"اس کے علاوہ بھی قرآن ِ حکیم کی بہت ساری آیات ِ مبارکہ میں زندگی کی اس بنیادی ضرورت کا ذکر آیا ہے ۔ ان آیات کی رشنی میں یہ کہنا بالکل حقیقت ہے کہ پانی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے ۔ اس عظیم نعمت ِ خداوندی سے نہ صرف انسانوں کی زندگی وابستہ ہے ، بلکہ دیگر جاندار بھی اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ۔  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ۔ یعنی ہر جاندار کے بنیادی خمیر میں پانی رکھ دیا گیا ہے ۔ اب بغیر پانی کے یہ جان دار کیسے زندہ رہ سکتے ہیں ؟ 

نا انصافی

قوموں کی نوک پلک سنوارنے میں انصاف اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنگل کو جنگل اس لیے کہا جاتا ہے ، کیوں کہ وہاں انصاف نہیں ہوتا ۔ یوں ہی نہیں کہا گیا کہ   کفر پر قائم حکومت   زندہ رہتی ہے ، جب کہ ظلم اور نا انصافی پر قائم حکومت اپنا وجود کھو دیتی ہے ۔ کسی بھی حکومت کے لیے انصاف قائم کرنا ایک مشکل ترین کام ہوتا ہے ۔ انصاف کیا ہے ؟ انصاف یہ ہے کہ سب کے حقوق کی پاس داری کی جائے ۔ کسی کو کم تر نہ سمجھا جائے ۔ سزا سب کے لیے یک ساں ہو ۔ اگر کوئی امیر جرم کرے تو اسے وہی سزا ملنی چاہیے ، جو غریب کواسی جرم کے کرنے پر دی جاتی ہے ۔ اگر کوئی حکومت نا انصافی کرتی ہے ، تو وہ عوام سے زیادہ اپنا نقصان کرتی ہے ۔ کیوں کہ عوام ایسی حکومت کو پسند ہی نہیں کرتی ، جو انصاف نہ کرے ۔ اور کبھی کبھا ر عوام کی یہی نا پسندیدگی  حکومت کے لیے وبال ِ جاں بن جاتی ہے ۔ زیرک اور عقل مند حکم ران وہی ہوتا ہے ، جو سب کو دیکھ کر چلتا ہے اور حتی الامکان اپنی راج دھانی میں انصاف پر مبنی نظام ِ حکومت کو فروغ دینے کے لیے  مصروف ِ عمل رہتا ہے ۔

بنیادی مسائل حل ہونے چاہئیں

وہ ایک عام علاقے کا عام آدمی تھا ۔ غریب تھا ، سو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا ۔ صبح کو اٹھ کر ناشتا کرنا ، پھر بچوں کو اسکول چھوڑنا ، پھر محنت مزدوری کرنے کے لیے بازار کا رخ کرنا اور پھر شام کو گھر لوٹ آنا ۔ یہی اس کا برسوں کا معمول تھا ۔ کبھی کبھار شام کو وہ ٹی وی پر خبریں بھی دیکھ لیتا تھا ۔ تاکہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو ۔ وہ پانچ جماعتیں پاس تھا ۔ اس نے کسی گورنمنٹ اسکول میں کافی عرصہ پہلے ، جب وہ بچہ تھا ، یہ پانچ جماعتیں پاس کی تھیں ۔ لیکن اسے اپنی ان پانچ جماعتوں پر آج کی گریجویشن سے بھی زیادہ فخر تھا ۔ اس کے خیال میں اُس کی پانچ جماعتیں ، آج کے گریجویشن سے بھی بہتر تھیں ۔ بہر حال یہ اس کا خیال تھا ۔ اس کے اس خیال سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے ، کلی طور پر نہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر اس کی گہری نظر نہیں تھی ۔ کیوں کہ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں تھا کہ وہ اخباروں کا ڈھیر لگا کر سارا دن پڑھتا رہے ۔  لیکن شام کو ٹی وی پر خبریں دیکھنے کی وجہ سے اس کو ملک میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ضرو

عوام سب کچھ سمجھ گئے

نئی حکومت نے آتے ہی منادی کی کہ ہم کرپشن کا خاتمہ کر دیں گے ۔ توانائی کا بحران ٹال دیں گے ۔ہم ملک میں شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ ہم ملک کا خزانہ لوٹنے والوں کا سخت احتساب کریں گے ۔ کسی کو ملک کا خزانہ لوٹنے نہیں دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ تو معمول کی باتیں تھیں ۔ جو ہر آنے والی حکومت اپنی سیاست پر چار چاند لگانے کے لیے اور عوام کے دل جیتنے کے لیے کیا کرتی تھی ۔ لیکن اہل ِ بصیرت جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہونے والا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہی رہے گا ۔ کچھ نہیں بدلے گا ۔ کرپشن اور لوٹ مار جوں کی توں جار ی رہے گی ۔ کیوں کہ یہ مسئلہ تو کئی سالوں پرانا تھا ۔ ہر حکومت آنے سے پہلے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے دعوے کرتی ۔ لیکن جب وہ حکومت  رخصت ہوتی تو یہ کرپشن پہلے سے بڑھ چکی ہوتی ۔ اس لیے اب کی بار بھی  سلجھے ہوئے لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ مسئلہ بالکل ختم نہیں ہوگا ۔  چاہے اس کے لیے جتنی بھی باتیں کی جائیں ۔