اشاعتیں

کرکٹ کی جیت سے پارا چنار کے دھماکوں تک

تصویر
شاید جب سے یہ دنیا بنی ہے ، کبھی خوشی ،کبھی غم یا کبھی بہار ، کبھی خزاں کا کھیل جاری وساری ہے ۔ ابھی اتوار تک ہم خوشیاں منار ہے تھے کہ ہم نے اپنے سب سے بڑے حریف کو ۔۔۔ اصل میدانوں میں نہیں تو ۔۔۔ کھیل کے میدان میں ضرور رام کر دیا ۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔ ہم نے مٹھائیاں بانٹیں ، سڑکوں کو گلنار کیا ، آسمان کو آتشیں گولوں سے سجایا  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے خوشی کے عالم میں فائرنگ بھی کی ۔ ہمیں خوشی اس بات کی نہیں تھی کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی جیتی اور عالمی رینکنگ میں آٹھویں سے چوتھے نمبر پر آگئی ، بلکہ ہماری پوری قوم اس بات پر خوش تھی کہ ہماری بظاہر "بچوں کی ٹیم " نے انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کو ہرا دیا ۔

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ حد سے زیادہ مصروفیات نے ایک بار پھر تسلسل توڑ دیا ۔ تسلسل کی بات آئے تو محسن بھوپالی کو ضرور یاد کرنا چاہیے ، جس نے کہا تھا : نہ چھیڑو کھلتی کلیوں ، ہنستے پھولوں کو ان اُڑتی تتلیوں ، آوارہ بھنوروں کو ، تسلسل ٹوٹ جائے گا ! فضا محو سماعت ہے ، حسین ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو ، نگاہیں نیچی رکھو اور مجسم گوش بن جاؤ

سیرت ِ طیبہ کے دو واقعات

اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِ حسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح ، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی

مسکرائیے

سیاست کی گرم بازاری میں مسکرانا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔ بہت سے موضوعات بکھرے پڑے ہیں ۔ لیکن سچ پوچھیں تو حالات ِ حاضرہ پر لکھنے کا جی ہی نہیں چاہتا ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں سے حالات ِ حاضرہ پر نہیں لکھا ۔ میری کوشش رہی کہ قارئین کو کوئی معلوماتی تحریر پڑھنے کو دے سکوں ۔ آج دل کر رہا ہے کہ اپنے قارئین کے چہروں پر مسکراہٹوں کو سجاؤں۔لطیفوں کے سلسلے میں میرا نقطہ ِ نظر یہ ہے کہ مذاق کی آڑ لے کر کسی مخصوص قوم کو نشانہ بنانا اچھی بات نہیں ہے ۔ ہمارا دین بھی اس سے منع کرتاہے ۔ ہمارے ہاں بہت سے ایسے لطیفے رائج ہیں ، جن میں 'سردار' اور 'پٹھان' کا ذکر ہوتا ہے ۔ اور خاص طور پر ان دونوں کو سخت طنز و مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس سے احتراز برتنا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے لطائف جن سے ابتذال ٹپکتا ہو ، اچھے نہیں ہوتے ۔ یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں ۔ ایسے لطیفوں سے  بچنا  بھی بے حدضروری ہے ۔  چند لطیفے پیش ِ خدمت ہیں ۔یہ سارے لطیفے میں نے انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹوں سے نکالے ہیں ۔ یعنی اس میں میرا کوئی 'کمال' نہیں ۔ 

قرآن ِ حکیم کےریاضیاتی اعجازات

قرآن ِ مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے ، جو آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ چوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ، لہٰذا اس جیسا کلام لانا مشکل ہی نہیں ، نا ممکن ہے ۔ سورۃ الاسراء کی آیت نمبر 88 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: "کہہ دو اگر سب آدمی اور سب جن مل کر بھی ایسا قرآن لانا چاہیں تو ایسا نہیں لا سکتے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار کیوں نہ ہو۔" سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : "اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ، اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو۔" یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سورۃ الاسراء مکی سورت ہے ، جب کہ سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے ۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ قرآن ِ حکیم جیسا دوسرا کلام لانا نا ممکن ہے ۔ پھر کہا گیا کہ پورا کلام لانا تو درکنار ، اس جیسی ایک

عمدہ اخلاق قرآن ِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں

اسلام کو سمجھنے کے دو بنیادی ذرائع ، قرآن حکیم اور احادیث ِ مبارکہ ہیں ۔ یعنی کتاب و سنت ۔ اگر ہم ان دونوں ذرائع کا بہ خوبی مطالعہ کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم ، آج کل کے اس مادی دور میں ، شاید ہی عملی مسلمان ہوں ۔ 'عملی' کیا ، ہم تو'علمی' مسلمان بھی  نہیں رہے ۔یعنی ہم اپنے دین کو جانتے ہی نہیں ہیں ۔ جب جانتے ہی نہیں ہیں ، تو عمل کیوں کر ہوگا ۔ ایک دور تھا ، جب عوام کے لیے اسلامی تعلیمات کو سمجھنا از حد مشکل تھا ۔ لیکن اب سچے علما کی محنتوں اور کوششوں سے یہ مشکلا ت خاصی آسان ہو گئی ہیں ۔جدید دور نے اور بھی آسانیاں پیدا کرد ی ہیں ۔ عام لوگ عربی نہیں سمجھتے ، لیکن اردو سمجھ لیتے ہیں ۔ قرآن ِ حکیم اور احادیث ِ مبارکہ کے آسان ترجمہ شدہ نسخے آسانی سے بازار میں مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی ویب سائٹیں بھی بن چکی ہیں ، جن کی مدد سے ہم بہ آسانی دین ِ اسلام کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیے ذوق و شوق کی ضرورت ہے ، جو فی الوقت ہماری قوم میں معدوم ہے ۔ 

نصیحت آموز باتیں

کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں  کہ جن کو ایک بار پڑھا جائے تو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک ایسی ہی کتاب میری نظروں سے گزری ۔ اس کتاب کو سرسری طور پر دیکھا تو یہ ایک نصیحت آموز کتاب تھی ۔ اس میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بزرگان ِ دین کی نصیحتیں تھیں ۔ میرا ماننا ہے کہ جو کتاب جنتے زیادہ خلوص کے ساتھ لکھی جائے گی ، اس کی قدر واہمیت اسی قدر زیادہ ہوگی ۔وہ اسی قدر شہرت حاصل کرے گی ۔ مذکورہ بالا کتاب  کے مولف نصر بن محمد بن احمد بن ابراہیم ہیں ۔ یہ بزرگ اور عالم ِ دین الفقیہ ابو اللیث سمرقندی کے نام سے مشہور ہیں ۔ ان کا انتقال سن 373 ہجری میں ہوا تھا ۔ کتاب  کانام "تنبیہ الغافلین " ہے ۔ غور کریں کہ مولف کے انتقال کو ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ، لیکن ان کی کتاب ہنوز پڑھی جارہی ہے ۔ آج میں اسی کتاب کی چند اچھی اور نصیحت آموز باتیں اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ کیوں کہ اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔