قارئین سے معذرت چاہتا ہوں

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ حد سے زیادہ مصروفیات نے ایک بار پھر تسلسل توڑ دیا ۔ تسلسل کی بات آئے تو محسن بھوپالی کو ضرور یاد کرنا چاہیے ، جس نے کہا تھا:
نہ چھیڑو کھلتی کلیوں ، ہنستے پھولوں کو
ان اُڑتی تتلیوں ، آوارہ بھنوروں کو ،
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
فضا محو سماعت ہے ،
حسین ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو ،
نگاہیں نیچی رکھو
اور
مجسم گوش بن جاؤ

اگر جنبش لبوں کو دی ،
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
افق میں ڈوبتے سورج کا منظر
اس بلندی سے ذرا دیکھو
اسی رنگین کنارے پر ،
شفق سونا لٹائے گی
یونہی تم بےحس و ساکت رہو
ایسے میں پلکیں بھی ذرا جھپکیں
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
وہ خوابیدہ ہے ، خوابیدہ ہی رہنے دو
نا جانے خواب میں کن وادیوں کی سیر کرتی ہو
بلندی سے پھسلتے آبشاروں میں کہیں گم ہو
فلک آثار چوٹی پر کہیں محو ترنم ہو
اگر آواز دی تم نے
تسلسل ٹوٹ جائے گا !
میں شاعر ہوں ،
مری فکر رساں ، احساس کی اس سطح پر ہے
جس میں خوشبو رنگ بنتی ہے
صدا کو شکل ملتی ہے
تصور بول اٹھتا ہے
خاموشی گنگناتی ہے
یہ وہ وقفہ ہے _ _ _ _ _ _ ایسے میں ،
اگر داد سخن بھی دی
تسلسل ٹوٹ جائے گا !

اس بار کم و بیش سات  مہینوں تک تحریری سرگرمیوں سے "باز" رہا ۔ دراصل انسان کی زندگی تضادات کا مجموعہ ہے ۔ کبھی خوشی ہے ، کبھی غم ہے ۔کبھی بہار ہے ، کبھی خزاں ہے ۔ کبھی محبت ہے ، کبھی نفرت ہے ۔ کبھی پانی ہے ، کبھی آگ ہے ۔ ۔۔۔ اسی طرح کبھی مصروفیا ت ہیں ، کبھی وقت ہی وقت ہے ۔
میرے قارئین ۔۔۔۔۔گو بہت کم ہوں گے کہ میں ان تک دیگر ذرائع کے مقابلے میں بہت چھوٹے ذریعے سے پہنچ پاتا ہوں ۔۔۔نے شاید میری غیر حاضری کو محسوس کیا ہوگا ۔ لیکن جب مصروفیات سرگرمیوں کے آڑے آتی ہیں  تو پھر یوں ہی ہوا کرتا ہے ۔ اب سے پہلے بھی کئی بار میں غیر حاضر رہا ، مگر وہ بہت چھوٹی غیر حاضریاں تھیں ۔ اس بار کی غیر حاضری بڑی غیر حاضری ہے ۔ جس کی وجہ سے مجھے آج کی پوری تحریی ، بلاگ یا کالم (جو آپ سمجھیں ) اسی موضوع پر لکھنا پڑ رہا ہے ۔

لکھنا ، مگر اچھا اور مثبت لکھنا بھی دیگر نیکیوں کی طرح ایک نیکی ہے ۔ یہ بڑی خوب صورت اور دیرپا نیکی ہے ۔ یاد رکھیے ، انسان فانی ہے ، اس کے اعمال لا فانی ہیں ۔ اچھے اعمال بھی لافانی ہیں ، برے اعمال بھی لافانی ہیں ۔ برے اعمال کی وجہ سے بری شہرت ملتی ہے ، اچھے اعمال کی وجہ سے اچھی شہرت ملتی ہے ۔ اچھا لکھنا اچھا عمل ہے ۔ تاریخ کتنے ہی ایسے بے مثال لکھاریوں سے بھری پڑی ہے ، جو خود تو چلے گئے ، لیکن اپنے بعد دنیا والوں کے لیے لازوال الفاظ کا ذخیرہ چھوڑ گئے ۔ اہل ِ دنیا نے ان کے الفاظ میں چھپے خیالات و افکار سے روشنی لی اور زمانے بھر کو روشن کردیا ۔ اس لیے اچھا لکھنا انسانیت کی عظیم خدمت ہے ۔

غالب نے کہا تھا:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر ِ خامہ نوائے سروش ہے
انسان خلوص کے ساتھ پہلا قدم اٹھائے تو آگے اللہ تعالیٰ کی اعانت اس کی ہم سفر بن جاتی ہے ۔ حروف سے الفاظ بنتے ہیں ۔ الفاظ سے جملے بنتے ہیں ۔ جملوں سے تحریریں جنم لیتی ہیں اور تحریروں سے کتابیں تشکیل پاتی ہیں ۔ یہ حرف سے کتاب تک کا سفر ناممکن ہے ، اگر اللہ تعالیٰ سچی مدد انسان کے ساتھ نہ ہو ۔ بارہا میرے ساتھ ایسا ہوا کہ ذہن بالکل خالی تھا ۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھوں ؟ کیسے لکھوں ؟ لیکن جوں ہی ابتدا کی ، منزل آسان ہوتی گئی ۔ خیالات آتے گئے ، تسلسل بنتا رہا ۔ یہاں تک کہ کچھ ہی دیر بعد میرے آنکھوں کے سامنے میری ایک پوری تحریر گردش کرنے لگی ۔ یقین جانیے ، جب میں نے آج کی تحریر کاعنوان باندھا تو کچھ معلوم نہیں تھا کی کیا لکھوں ۔ اب بحمد للہ سات سو سے زیادہ الفاظ ہوگئے ہیں ، لیکن ذہن پھر بھی خیالات و الفاظ سے بھرا ہو ا ہے ۔

بے شک آج کی تحریر میں بہت سی "ادھر ادھر کی باتیں " ہو گئی ہیں ۔ ان شاء اللہ ، اگلی تحریر میں کسی سماجی اور معاشرتی موضوع پر لکھوں گا ۔ قارئین سے ایک بار پھر معذرت ۔۔ اس بار، ان شاء اللہ ، تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دوں گا ۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق

ذمرہ: معاشرتی




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے