اشاعتیں

ملی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فلسطینیو! ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتے

تصویر
تحریر: نعیم الرّحمان شائق فلسطینیو!ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر ہم آپ کے لیے کچھ کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے۔ بین الاقوامی حدود، سرحدی قیود، قومی قوانین۔۔ ۔یہ سب ہمیں آپ کے لیے کسی بھی قسم کا عملی قدم اٹھانے سے گریزاں رکھتے ہیں۔ ہم کیا کریں؟ مجبور ہیں، بے بس ہیں۔اس لیے آپ سے دردمندانہ گزارش ہے کہ ہم سے کسی بھی قسم کی امید رکھنا چھوڑ دیں۔ آپ اپنا کام کریں۔ ہمیں اپنا کام کر دیں۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے پڑوس میں کشمیر جنت نظیر ہے۔چوہتر سال بیتنے کو ہیں کہ یہ خطہ بھارت   کے زیر ِ تسلط ہے۔ ہم اپنے پڑوسی خطے   کا مسئلہ حل نہیں کرسکے تو آ پ کا کیا خاک کریں گے ؟ ہم کشمیر کو پچھلے چوہتر سالوں سے فقط اظہار ِ یک جہتی، نغموں، اور کشمیر ڈے پر ٹرخا رہے ہیں۔ اس لیے میری مانیں تو ہماری طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنا چھوڑ دیں۔ مانا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ ہمارا ملک واحد اسلامی ملک ہے، جو ایٹمی طاقت کا حامل ہے، لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم وہ بم اسرائیل پر گرا دیں گے ، تو یہ محض آپ کی خام خیالی ہو گی۔

6 ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ

تصویر
  ہم چھے ستمبر کا دن یوم ِ دفاع کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن ہم اپنی فوج کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں۔   دراصل 6 ستمبر 1965ء کورات کی تاریکی میں   بھارتی فوج نے میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں لاہور پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ بھارت پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ہماری فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کو واپس اپنے ملک جانے پر مجبور کر دیا۔

بے یارو مددگار روہنگیا مسلمان

تصویر
ایک بار پھر میانمار (برما) میں مسلمانوں کے لیے عرصہ ِ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ دی گارجین کے مطابق ایک ہفتے میں چار سو  مسلمان شہید کردیے گئے۔یہ شہادتیں میانمار کی شمال مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد وقوع پزیر ہوئیں۔

میں ستر سال کا ہوگیا

تصویر
میرا نام پاکستان ہے۔ آج 14 اگست، 2017 کا دن ہے۔ آج سے ٹھیک ستر سال پہلے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے ہاں میری پیدائش ہوئی تھی۔ آج میری عمر ستر سال ہے۔ لیکن میں اب بھی جوان ہوں، پر امید ہوں، پر سکون ہوں۔ کیوں کہ میں کوئی انسان تو نہیں کہ بوڑھا ہو جاؤں گا۔ میری بنیاد عظیم لوگوں نے رکھی تھی۔ جن میں حضرت قائدِ اعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، چوہدری رحمت علی، اے۔ کے فضل الحق، مولانا محمد علی جوہر، سرسید احمد خان سر ِ فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی مخلص لوگوں نے میری بنیاد میں اہم کردار ادا کیا۔ میں ان مخلص اور عظیم لوگوں کی وجہ سے ، ان شاء اللہ، ہمیشہ قائم و دائم رہوں گا۔ 

مسجد ِ نبوی کے قریب حملہ۔۔۔مسلمان کب جاگیں گے؟؟

خلیفہ ِ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ِ حکومت میں جب باغی مدینہ منورہ تک پہنچ گئے تو ایسے نازک حالات میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تین تجویزیں پیش کیں ۔ ان  میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ آپ جہاد کا حکم دے دیجیے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ برد بار اور حلیم الطبع تھے ۔آپ نے فرمایا :"مجھے یہ منظور نہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوکر امت کا خون بہاؤں ۔میں وہ خلیفہ نہیں بنوں گا ، جو امت ِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام میں خون ریزی کی ابتدا کرے ۔"یہ واقعہ مجھے مسجد ِ نبوی کے قریب ہونے والے حالیہ خود کش دھماکے پر یاد آیا۔ جس میں چار لوگ شہید ہوگئے ۔ یہ کون لوگ ہیں ، جو سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے قریب خود کش دھماکے کرنے سے نہیں چوکتے ۔ بے شک یہ اندوہ گیں واقعہ  تما م عالم ِ اسلام کے مسلمانوں کے لیے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ ایک ایسا مقام جس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے مجھ ایسے ناتواں اور عاصی شخص کے لفظوں کا ذخیرہ ختم ہوجائے ، لیکن عظمت ختم نہ ہو ۔ ایک ایسا مقام جہاں بادشا ہ ، فقیر بن

کشمیر کا مسئلہ

بازار میں اسی چیز کی رسد زیادہ ہوتی ہے ، جس کی مانگ زیادہ ہو ۔ جس چیز کی مانگ ہی نہ ہو ، تاجر اس کو کیا بیچے گا ۔ بازارِ صحافت میں 5  اور 6 فروری کو "کشمیر " کی مانگ زیادہ تھی ۔ سو اس کے نام پر شہرت کا خوب کاروبار سجا ۔ جس طرح ہر سال سجتا ہے ۔ 5 فروری کو ٹی وی پر اور 6 فروری کو اخباروں میں کشمیر کے سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا ، سنا گیا ، لکھا گیا اور پڑھا گیا ۔ اب اس کے بعد طلب اور رسد کا اصول مد ِ نظر رکھتے ہوئے مجھے کشمیر پر کچھ نہیں لکھنا چاہیے ۔ ویسے بھی ہمارے عوام حالات ِ حاضرہ پر مبنی تحریریں پڑھتے ہیں ۔ 5 فروری کے گذ ر جانے کے بعد کشمیر کا موضوع حالات ِ حاضرہ کا موضوع نہیں رہا ۔ کہاں 6 فروری کی یہ شب ، جب میں اس موضوع پر چند جملے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور کہاں 5 فروری ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے ۔ لمحوں لمحوں میں کئی حادثات و واقعات جنم لیتے ہیں ۔ مجھے فی الحقیقت تازہ سے تازہ تر اور تازہ تر سے تازہ ترین واقعے پر لکھنا چاہیے ۔ بازار ِ صحافت کا اصول ِ طلب و رسد بھی مجھ سے اسی عمل کی توقع رکھتا ہے ۔

سانحہ ِ چار سدہ ۔۔۔۔ دورہ ِ عرب و ایران

سو فی صد توجہ اس طرف مر تکز تھی کہ اس بار وزیر ِ اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ ِ عرب و ایران پر لکھوں گا ۔ لیکن کیا کروں  اس خزاں رت کا ۔۔۔ جو وطن ِ عزیز میں  بہار کو پنپنے ہی نہیں دیتی ۔ کیا کروں اس حادثے کا ۔۔۔جس نے پوری قوم کو سوگ وار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سو آج کی میری تحریر دو موضوعات پر مشتمل ہوگی ۔ یعنی سانحہ ِ چارہ سدہ اور اور وزیر ِ اعظم اور آرمی چیف کا دورہ ِ عرب و ایران۔ بدھ کی صبح نو بجے چار مسلح لوگ پشاور کے ضلع چار سدہ میں با چا خان یو نی ورسٹی کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی ۔ جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 21 لوگ شہید ہوگئے ہیں ۔ ان 21 شہیدوں میں سے 19 طلبہ تھے ۔ ایک لیب اسسٹنٹ تھا اور ایک پروفیسر تھے ۔

شام میں ظلم کی شام کب ڈھلے گی؟

شام ، جہاں پچھلے کئی سالوں سے موت کا کھیل کھیلا جارہا ہے ، نہ جانے وہاں کب ظلم کی شام ڈھلے گی ۔ جتنے منھ ہیں ، اتنی باتیں ہیں ۔ کوئی کہتا ہے ،بڑی طاقتیں روس اور امریکا یہ جنگ کر وارہی ہیں ، تاکہ ان کا اسلحہ بک سکے ۔ کوئی کہتا ہے ، یہ شیعہ سنی قضیہ ہے ۔  کوئی کہتا ہے ، یہ عرب و عجم کی لڑائی ہے ۔ کوئی کیا کہتا ہے ، اور کوئی کیا ۔  جو کچھ بھی ہے ، ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ ان بد نصیبوں پر جو ظلم کی کالی رات چھائی ہوئی ہو ، جلد از جلدامن و سلامتی کی سحر میں تبدیل ہو جائے ۔ امت ِ مرحومہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے فلسطین اور کشمیر کے مسائل تھے ۔ اب شام کا مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی ، ایران کا مسئلہ بھی  خطرناک صورت حال پیش کر رہا ہے ۔ جب تک مسلم امہ نا اتفاقی کا شکار رہے گی ، اس کے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ 

خطبہ ِ حج۔۔۔سانحہ ِ منیٰ

وقوف ِ عرفہ کے دوران سعودی مفتی ِ اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ نےخاص طور پر فریضہ ِ حج ادا کرنے والوں کو اور عام طورپر پوری امت ِ مسلمہ کو بڑا بصیرت افروز خطبہ ِدیا ۔ اگر اس خطبے میں کہی  گئیں باتوں پر عمل کیا جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ شیخ عبد العزیز آل الشیخ نے اس خطبہ ِ حج میں اسلام کی حقیقی تصویر کشی کی ۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن ، محبت اور آشتی کا درس دیتی ہیں ۔ لیکن اسلام کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کے درپے ہیں کہ اسلام معاذ اللہ جنگ و جدل کا درس دیتاہے ۔ اسلام بہت سخت مذہب ہے ۔ جب کہ کچھ اپنے لوگ بھی ہیں ، جو یہ سمجھتے ہیں اسلام کی تعلیمات اب فرسودہ ہوگئیں ہیں ۔ اس لیے یہ قابل ِ عمل نہیں رہیں ۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اسلام صرف عبادات تک محدود رہے ۔ معاملات میں ہمیں مغرب اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ اسلام عبادات اورمعاملات دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اسلام عبادات کا بھی درس دیتا ہے اور معاملات کو بھی بہ حسن و خوبی سر انجام دینے کے طریقے اور سلیقے سکھاتا ہے ۔ ہماری حقیقی کام یابی صرف اور صرف اسلا

وہ جو سوئے حرم چلے اور واپس نہ آئے

قوی ارادہ تھا کہ اس دفعہ سپریم کورٹ کے اردو کے حق میں دیے گئے فیصلہ پر لکھوں گا ۔کیوں کہ پچھلے دنوں معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دے دیا ۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر مجھ جیسے اردو کے شائق کے لیے ایک بہترین خبر تھی ۔لیکن بروز ِ ہفتہ کے اخبارات کی سیاہ سرخیوں نے  ارادہ  یکسر تبدیل کر دیا ۔ کبھی کبھی یوں ہی ہوتا ہے کہ اخیر لمحے میں موضوع تبدیل کرنا پڑتا ہے ۔ پھر کالم جتنے  تاز ہ موضوع پر ہوگا ، اتنی ہی لوگوں کی توجہ حاصل کرے گا ۔ اس کے علاوہ میرا نقطہ ِ نظر یہ بھی ہے کہ حرم ِپاک سے مسلمانوں کا روحانی اور دینی رشتہ  ہے ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو اس پر ضرور لکھنا چاہیے ۔ 

ڈیمین موران کا جراء ت مندانہ اقدام

انصاف یہ ہے کہ برا کام اپنے بھی کریں تو مذمت کی جائے اور اچھا کام غیر بھی کریں تو تعریف کی جائے ۔ یہ انصاف نہیں کہ اگر کوئی ان جان یا آپ کا حریف کوئی اچھا کام کرے تو اسے نظر انداز کر دیا جائے ۔ اسی طرح یہ بھی نا انصافی ہے کہ آپ کا کوئی جاننے والا یا آشنا یا آپ کی قوم کا فرد کوئی برا کام کرے تو آپ اس کی حمایت میں بولنے لگیں ۔غیر جانب داری بھی اسی عمل کانام ہے  کہ آپ انصاف کا ثبوت دیتے ہوئے مذمت اور تعریف کا وہ معیار اپنائیں ، جس کا ذکر اوپر کی سطروں میں ہوا ہے ۔ 

نریندر مودی کا فون اور مسئلہ ِ کشمیر

پچھلے دنوں بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو فون کیا ۔ انھوں نے وزیر ِ اعظم نواز شریف کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستانی مچھیروں کی رہائی کی  نوید بھی سنائی ۔ دونوں رہنماؤں نے  متانازعہ بیانات نہ دینے پر اتفاق کیا ۔ یہ گفتگو پانچ منٹ تک جاری رہی ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نے اس گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر ِ اعظم نے  اپنےبھارتی ہم منصب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ اور اختلافات کی بہ جائے امن و محبت کی طرف جانا چاہیے ۔ تاکہ دونوں ملکوں کے عوام اپنے لیڈروں کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔ قوموں کے حکم ران گھر کے سربراہ کی طر ح ہوتے ہیں ، جو اپنے خاندان کو لڑائی جھگڑوں سے بچا کر امن کی طرف لے جاتے ہیں اور ہر آفت سے ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں کنبے کی فلاح ہر حال میں مقدم ہوتی ہے۔ 

"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "

اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے  پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ  بہت زیادہ  غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت  کے وزیر ِ اعظم نے  تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ، بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔ انھیں کسی  طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ اعظم کا  مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی ہوگی ۔ 

مسلم دنیا کا ایک دکھتا نا سور

3 مارچ، 1924 ء ۔۔ یہ وہ دن ہے ،جس دن ترکی میں خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ خلافت کے خاتمے میں اپنوں اور غیروں ، دونوں کا ہاتھ تھا ۔ خلافت متحرک نہیں تھی ۔ خلافت کے جسم میں وہ طاقت ختم ہو گئی تھی ، جو مسلمانان ِ عالم کے مسائل حل کر سکتی ہو ۔ ترکی میں قائم خلافت سے کوئی خوش نہیں تھا ۔ انگریز بر صغیر پر چڑھ دوڑے ۔ وہاں کی بادشاہت ٹکڑے ٹکڑے کردی ۔ مظالم کی انتہا کر دی ۔ مگر ترکی میں صدیوں سے قائم خلافت مسلمانان ِ بر صغیر کے لیے کچھ کام نہ آئی ۔دوسری طرف عرب بھی ترکی خلافت سے سخت نالاں تھا ۔ انھوں نےپہلی جنگ ِ عظیم کے دوران  ترکی کے خلاف بغاوت کر دی ۔ 

بھولے بسرے مسلمان

جمعۃ المبارک کے بابرکت دن خبر آئی کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں پہلے تین بسوں کے مسافروں کو اغوا کر لیا گیا اور پھر شناخت کے بعد بیس افراد کو شہید کر دیا گیا ۔ اسی بابرکت دن کو سعودی عرب کے شہر دمام میں مسجد کے باہر خود کش دھماکا ہو ا، جس سے چار افراد شہید ہو گئے ۔واضح رہے کہ سعودی عرب میں یہ دوسرا بم دھماکا ہے ۔ یعنی اب سعودی عرب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا ۔ رب تعالیٰ رحم کرے ۔

مصر میں جمہوریت کا خون

فی الحقیقت مصر میں جمہوریت کا خون ہو گیا ۔ مصر کی ایک عدالت نے سابق صدر محمد مرسی سمیت 106 افراد کو سزائے موت سنا دی ۔ ان پر 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف عوامی بغاوت کے دوران جیل توڑنے کا الزام ہے ۔ کہا یہ بھی جار ہا ہے کہ انھوں نے حماس ، حزب اللہ اور مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ جس کے نتیجے میں محمد مرسی سمیت اخوان کے 34 افراد فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے ۔ اس سے قبل محمد مرسی کو 20 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ 

امامِ کعبہ کے نصائح

24 مارچ 2015 بروز جمعۃ المبارک کو امام ِ کعبہ شیخ خالد الغامدی نے بحریہ ٹاؤن لاہور کی جامع مسجد میں خطبہ ِ جمعہ دیا ۔ انھوں نے اس خطبے میں اسلام کے حوالے سے جن باتوں کا درس دیا ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ یہ کوئی نئی باتیں نہیں تھیں ۔ قرآن حکیم کو بہ غور پڑھا جائے تو یہی نےنتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے۔ یہ دین ِ مبین نہ صرف اپنوں کے لیے بلکہ غیروں کے لیے بھی نسخہِ اکسیر ہے ۔ یہ دنیا کی تمام اقوام کے لیے رحمت ہی رحمت ہے ۔ ہر ایک اس آفاقی دین کے دامن ِ عافیت میں آکر حقیقی سکون حاصل کر سکتا ہے ۔یہ الہامی اصولوں پر مبنی ایسا دین ِ مبین ہے ، جو اقوام عالم کے لیے امن ، سکون اور آتشی کا ضامن ہے ۔   

اتحاو اتفاق ۔۔۔مسلمانوں کی اہم ضرورت

اس میں شک نہیں کہ اتحاد و اتفاق مسلمانوں کی سب سے اہم ضرورت ہے ۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے کبھی کبھی مسلمانوں کو اس سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں ۔ مسلمان دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں ۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ ہے ۔ دنیا کے اٹھاون ممالک پر مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ عیسائیوں کے بعد  دنیا میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر مسلمانوں کی کیا اہمیت ہے ، وہ ہم سب جانتے ہیں ۔ اس وقت مسلمانوں کو کئی قسم کے خطرات لا حق ہیں ۔ جن کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ لیکن میری نظر میں سب سے بڑی وجہ مسلم دنیا میں پھیلی نا اتفاقی اور انتشار ہے ۔ کہیں فرقہ واریت ہے  تو کہیں قوم پرستی ۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ تعصب ہے ۔  مسلمان جب تک متحد نہیں ہوں گے ، وہ اپنے مقاصد کی تکمیل نہیں کر سکیں گے ۔ ان کی حالت یہی رہے گی ۔ وہ اپنے دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر قسم کے نا اتفاقی اور انتشار پھیلانے والے عوامل سے گریز کریں ۔ 

امریکا اور مسلم دنیا

امریکی صدر نے دنیا کو باور کرایا کہ مغرب اور اسلام میں جنگ کو تائثر سفید جھوٹ ہے ۔ دنیا پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے ۔ بین الاقوامی برادری دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں غیر متزلزل عزم کا اظہار کرے ۔ جہادی یہ غلط تائثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے ۔ مگر یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراء ہے ۔ بغیر کسی مذہبی تفریق کے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تائثر کو مسترد کریں ۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ، ہم ان عناصر سے لڑ رہے ہیں ، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے ۔ 

دو منفی خبریں

پھر وہی خون ۔ پھر وہی لہو زدہ تحریر ۔ سمجھ نہیں آتا ، کب تک ایسی تحریریں لکھنے کی نوبت آتی رہے گی ۔ ذہن ماؤف ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عنقا ہے ۔ بے ربط سے جملے دماغ پر مسلط ہیں ۔ پس وہی زیر ِ قلم ہیں ۔پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا ہے ۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد دوسرا بڑا حملہ ، جو اس شہر میں وقوع پزیر ہوا ۔ ہر ہفتے سوچتا ہوں ، کسی مثبت موضوع پر طبع آزمائی کروں ۔ مگر کیوں کر ؟ جہاں پشاور ایسے سانحات منہ چڑا رہے ہوں ، وہاں کیسے مثبت موضوعات پر لکھا جا سکتا ہے ؟