بے یارو مددگار روہنگیا مسلمان

ایک بار پھر میانمار (برما) میں مسلمانوں کے لیے عرصہ ِ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ دی گارجین کے مطابق ایک ہفتے میں چار سو  مسلمان شہید کردیے گئے۔یہ شہادتیں میانمار کی شمال مغربی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد وقوع پزیر ہوئیں۔





بہت سے لوگ میانمار سے بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کر چکے ہیں ۔ اقوام ِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق لگ بھگ اڑتیس ہزار روہنگیا اپنے گاؤں چھوڑ کر بنگلہ دیش میں جانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ دنیا کی عالمی طاقتیں آنگ سان سوچی کی حکومت کو خبر دار کر چکی ہیں کہ وہ معصوم شہریوں کو قتل سے گریز کرے۔ یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ آنگ سان سوچی سن 1991ء میں امن کا نوبل انعام وصول کر چکی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آنگ سان سوچی کا امن کہاں گیا؟

سب سے عجیب بات یہ ہے کہ میانمار کو صحافیوں کے لیے بلاک کر دیا گیا ہے۔ شاید روہنگیا پر مظالم توڑنے والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کا ظلم وبربریت دنیا والوں کو نظر نہیں آئے گا، لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا عالمی گاؤں بن چکی ہے۔ میڈیا پر پابندی کے باوجود پوری دنیا کو میانمار کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کے بارے میں معلوم ہو چکا ہے۔ ہیومن رائٹس کے ڈپٹی ایشیا ڈائریکٹر فل روبرٹسن کہتے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی کو چاہیے کہ وہ آنگ سان سوچی اور ان کی غیر عسکری حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ انسان دوستوں ، صحافیوں اور محققوں کو میانمار میں آنے کی اجازت دے، تاکہ یہ لوگ وہاں کی صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔


نیویارک ٹائمز  کی ایک دل دہلا دینے والی حالیہ خبر کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی طرف لے جانے والے کشتی ڈوب گئی ، جس کے نتیجے میں چھیالیس لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ان میں انیس بچےتھے۔ اٹھارہ خواتین تھیں۔ جب کہ دس آدمی تھے۔

الجزیرہ کے مطابق میانمار کے روہنگیا کو دنیا کی سب سے مظلوم اقلیت سمجھا جاتا ہے ۔ وہاں کی حکومت ان کو نسلی رتبہ نہیں دی رہی ۔ یعنی ان کا تشخص مجروح ہے ۔ انھیں وہ مقام نہیں مل رہا، جو ملنا چاہیے ۔   

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میانمار کے روہنگیا کس طرح ظلم و ستم سے بچ سکتے ہیں؟اس سوال کا جواب ٹن کھن دیتے ہیں۔ ٹن کھن برمیز روہنگیا آرگنائزیشن یو کے کے صدر ہیں۔ ان کی مطابق اب  صرف بین الاقوامی دباؤ ہی روہنگیاکو بچا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم اب تک کے حالیہ واقعات میں ہزار لوگوں کی موت کی تصدیق کر چکی ہے۔ جب کہ دس ہزار سے زائد گھر تباہ کیے اور جلائے جا چکے ہیں۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ برمیز مسلمانوں کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، اگر وہاں کی حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہے۔ ٹن کھن اس وقت روہنگیا لوگوں کی رہنما آواز بن چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھولے بسر ے مسلمان

عالمی دباؤ کی تجویز اپنی جگہ ۔ لیکن ذرا سوچیے۔ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک اعشاریہ چھے بلین ہے ۔ یعنی دنیا کی کل آبادی کا بائیس اعشاریہ بتیس فی صد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پچاس سے زائد ملکوں میں مسلمانوں کی حکومت ہے ۔ مسلمان کے پاس ترکی جیسا مضبوط معیشت والا ، پاکستان جیسا ایٹمی طاقت سے لیس ، سعودی عرب ، قطر اور کویت جیسے تیل سے مالا مال ممالک ہیں۔ اس کے بر عکس دنیا میں بودھ مت کے پیروکاروں کی تعداد تین سو چھہتر ملین ہے۔ یعنی دنیا کا پانچ اعشاریہ پچیس فی صد حصہ ۔ مگردنیا کی دوسری بڑی قومیت میں۔۔۔۔جس کو قرآن ِ حکیم نے آج سے کم و بیش چودہ سو سال قبل دنیا جہاں کی قوموں سے ممتاز کرنے کے لیے"ملت" کا خطاب دیاتھا۔۔۔ اتنی جراءت نہیں کہ وہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لیے یک جان ویک قالب ہو سکیں ۔ آہ! کیا زمانہ آگیا ہے کہ مسلمان مضبوط ہو کر بھی کم زور ہیں ۔ غیر مسلم کم زور ہو کر بھی مضبوط ہیں۔

کل عید ہے۔ نہ جانے روہنگیا کس طرح عید منائیں گے۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے