یقین جانیے ، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا
میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے "نقل
کی روک تھام " کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے ۔ بھارت کے طلبہ
کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے ۔ بچے تو بچے
ہوتے ہیں ، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں
کابنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے ۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟اگر
ہم اپنی تحریروں کے ذریعےاپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور
جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں تو یہ بالکل اچھی بات نہیں ہے
۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم
موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ہمارے
حساس دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے ۔ اس لیے ہم نے ایک
جذباتی کالم لکھ مارا ۔کیوں کہ ہمارے لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی
تھی کہ نقل "صرف " ہمارے بچے کرتے ہیں ۔ لیکن جب ہمیں معلوم
ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک
چھوٹی سی ترمیم کرنی پڑی ۔
Saturday, March 28, 2015
Saturday, March 21, 2015
نقل کی روک تھام
پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب
نقل کلچر ہے ۔ مجھے دیگر صوبوں کا علم نہیں ، لیکن جس طرح صوبہ ِ سندھ کے شہر
کراچی میں نقل ہوتی ہے ، اس سے ہماری تعلیم کے معیار کا پول کھل جاتا ہے ۔ ان دنوں
امتحانا ت کا دور دورہ ہے ۔ اسکولوں میں امتحانات ہو گئے ہیں ۔ اگلے مہینے کی
ابتدا میں کراچی میں جماعت نہم اور دہم کے امتحانات شروع ہوں گے ۔ اس کے بعد
گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات ہوں گے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ
امتحانات سے بالکل خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے چہروں سے پریشانی ذرا بھی نہیں
جھلکتی ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں نقل کر کے پاس ہو جائیں گے ۔ یہ
نقل ہی ان کے کام یاب ہونے کا واحد سہارہ ہے ۔
Saturday, March 14, 2015
اردو کا مسئلہ
پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق:
(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے
اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں
گے ۔
(2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض
کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ
ہو جائیں ۔
(3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر
، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم
، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی ۔
Saturday, March 7, 2015
کچھ باتیں کتابوں کی
یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ عموما پوری
قوم اور خصوصا ہماری نوجوان نسل کتابوں سے خطرناک حد تک دور ہوتی جارہی ہے ۔ گو
زمانے نے بہت ترقی کر لی ہے ۔ جدید انفار میشن ٹیکنا لوجی کا دود دور
ہ ہے ۔ دنیا سکڑ کر عالمی گاؤں بن چکی ہے ۔ مگر میری دانست میں کتابیں اس وقت بھی
علم کا سب سے بڑا منبع ہیں ۔ گویا کتابوں سے دوری علم سے دوری کے مساوی ہے ۔ ہمارے
طلبہ بھی کتابوں سے بھاگتے ہیں ۔وہ صرف اپنی نصابی کتابوں تک محدود رہتےہیں ۔ جس
کی وجہ سے ان کی معلومات جمود کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ یہ کتابوں سے دوری کا ہی
شاخسانہ ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں تحقیق و تجسس اور شعور و آگہی جیسی حیات ِ
جاوداں بخشنے والی چیزیں پروان نہیں چڑھتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کل کے طلبہ و
طالبات علمی میدان میں کوئی بڑا کار ِ نمایاں سر انجام نہیں دے پاتے ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Featured post
Khutbat-e-Ahmadiya---The Forgotten Book
"Khutbat-e-Ahmadiyya" is the series of lectures delivered by Sir Syed Ahmad Khan in Allahabad in 1886, after his return from E...
-
تحر یر و تحقیق: نعیم الرّحمان شائق آئے دن سوشل میڈیا پر ایسے ایسے شعر پڑھنے کو ملتے ہیں جو سرے سے شعر ہی نہیں ہوتے۔اس پر ستم ظریفی یہ کہ ا...
-
تحر یر: نعیم الرّحمان شائق ایک استاذ کو پڑھاتے ہوئے مختلف قسم کی حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں۔ ایک جماعت میں مختلف قسم کے بچے ہوتے...
-
نعیم الرّحمان شائق خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو کے عظیم شاعر،نثر نگار، ادیب اور نقاد تھے۔ 1837ء میں ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیدا ...