کریم بلال عظیمی، لیاری کے عظیم باکسر، فن کار اور شاعر
تحریر: نعیم الرّحمان شائقؔ یہ 2011ء کی بات ہے۔ میں ، کریم بلال ؔعظیمی، سانی ؔسیداور میرے بھائی وسیم ہاشمی ہر شب ِ جمعہ کو بعد نماز عشاء ایک بیٹھک میں بیٹھتے۔ ان دنوں ہمیں شاعری کا نیا نیاشوق چڑھا تھا۔ سو ہم تقریباً ہر ہفتے ایک محفل ِ مشاعرہ منعقد کرتے۔ کبھی کبھار اور دوست بھی آجاتے۔ محفل ِ مشاعرہ کے ساتھ ساتھ ادبی باتیں بھی ہوتیں۔ ان نشستوں سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ گو سانیؔ سید اور وسیمؔ ہاشمی کا مطالعہ بھی خاصا وسیع تھا، مگر کریم بلالؔ عظیمی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ان دنوں میں دیوان ِ غالبؔ پڑھ رہا تھا۔ غالبؔ کا یہ شعر میری سمجھ سے باہر تھا: نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا میں نے اس سلسلے میں کریم بلال صاحب سے رہنمائی مانگی تو انھوں نے اس کی بڑی اچھی تشریح کی۔ میں کسی کے جواب سے مطمئن ذرا دیر سے ہوتا ہوں۔لیکن کریم بلال ؔ عظیمی نے ایک ہی لمحے میں مجھے مطمئن کر دیا۔