اشاعتیں

تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے طلبہ اور اساتذہ کو ہونے والے نقصانات

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق جب سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا ہے، تیسری بار ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ رہا ہے۔ یہ فیصلہ پڑوسی ملک بھارت میں کووڈ انیس کی وجہ سے ہونے والی حالیہ تباہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ وزیر ِ اعظم نے کہا ہے کہ اگر   ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو سخت فیصلہ کرنا پڑے گا۔انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا   ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بھارت جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ دو روز قبل وزیر ِ اعلا سندھ   مراد علی شاہ نے نیوز کانفرنس کی جس میں انھوں نے دیگر فیصلوں کے ساتھ ساتھ   یہ بھی کہا کہ تمام تعلیمی ادارے تا حکم ِ ثانی بند رہیں گے۔    

آہ! مولانا وحید الدین خان!موت انھیں بھی اچک کر لے گئی

تصویر
        تحریر: نعیم الرحمان شائق   نہ جانے جب بھی کوئی اہل ِ علم اٹھتا ہے تو مجھے کیوں شورش کاشمیری کا وہ درد بھر مرثیہ یاد آجاتا ہے ، جو انھوں نے مولانا ابوالکلام آز اد کی وفات پر لکھا تھا۔ابوالکلا م جب اس دنیا سے اٹھے تو شورش نے تڑپ کر کہا تھا: عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے تری جدائی پہ مرنے والے وہ کو ن ہے جو حزیں نہیں ہے مگر تری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے  

حسرت

  شاعر: نعیم الرحمان شائق جب اس کی یادوں کا نشہ مجھ پر چڑھتاہے دل میں لہر سی اٹھتی ہے چاہت کی لہر  

حضرت واصف علی واصف کے سو اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق کچھ لوگ مر کر   بھی امر رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگیوں میں ایسے کارہائے نمایا ں سر انجام دیے ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے انھیں مرنے کے بعد بھی یاد رکھا جاتا ہے۔یاد رکھیے کہ شہرت کی دو قسمیں ہوتی ہیں: اچھی شہرت اور بری شہرت۔ جو عظیم لوگ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ   کر کے جاتے ہیں، انھیں ہمیشہ اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے اور ان کے حصے میں اچھی شہرت آتی ہے۔ اس کے بر خلاف جو لوگ انسانیت کے منافی کچھ کرکے جاتے ہیں، تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرتی اور ان کو بری شہرت نصیب ہوتی ہے۔

بابائے بلوچی مولانا خیر محمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق  یادش بخیر۔۔۔۔ جب شاہد حیات ایڈیشنل آئی جی سندھ تھے تو ایک دن وہ لیاری میں آئے اور خطاب کیا۔ دوران ِ خطاب انھوں نے لیاری کی سربرآوردہ شخصیات کا نام لیا، جن میں سے ایک نام مولانا خیر محمد ندوی کا تھا۔ لیاری سے تعلق ہونے کے باوجود میں ان کا نام پہلی بار سن رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے ذہن میں ہی خاکہ بنا دیا کہ یہ شخص ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی کے علاقے لیاری میں آبسے ہوں گے۔ ندوۃ العلماء کے طالب ِ علم ہونے کی وجہ سے بہت سارےعلمی کام کیے ہوں گے۔ لیکن میرا یہ خیال اس وقت مفروضہ ثابت ہوا، جب میں نےبلوچ سیکنڈری اسکول لیاری سے ملحق مدنی مسجد میں ایک کتاب دیکھی۔کتاب کا نام تھا: عملانی فضیلتاں۔ یہ دراصل مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور کتاب "فضائل اعمال" کا بلوچی ترجمہ تھا۔  پھر میں نے انٹرنیٹ نگری کا رخ کیا تو اقبال کلمتی کے بلاگ پر  "بلوچی ءِ اولی کتاب" کے نام سے ان کی ایک تصنیف سر سری طور پر پڑھنے کا موقع ملا۔ میں بلوچی سے تاحال نا بلد ہوں۔ سو اس کتاب سے مکمل طور پر استفادہ نہ کرسکا۔

بانو قدسیہ کے اقوال

تصویر
تحریر: نعیم الرحمان شائق میرے پیارے دوست شائف راشد حسین لکھتے ہیں: "بابا اشفاق احمد اور آپا بانو قدسیہ جب ایک دوسرے کی زوجیت میں بندھ گئے تب سے لیکر بابا کے انتقال یعنی جب تک دونوں حیات رہے ایک دوسرے کے سچے رفیق اور ساتھی رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ ایک قدامت پسند بلکہ قدامت پرست بابا نے اپنی زوجہ کو پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس سے چاہے ملے، جیسا چاہے پہنے اور جو سمجھ آئے لکھے۔ ہمیشہ بانو قدسیہ صاحبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ ایک پڑھی لکھی، زمانے کے ساتھ قدم بقدم چلنے کاعزم رکھنے والی بانو قدسیہ بھی اشفاق احمد کی اسیر رہیں مگر وہ جانتی تھیں    کہ اس دیو قامت شخصیت والے بابا کو کیسے اپنا داس بنائے رکھنا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ ایک دفعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک ادبی محفل کے اختتام پر جب لوگ اٹھ کر جانے لگے، میں اور بانو آپا باتیں کرتے آگے آگے چلتے ہوئے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ دہلیز پر پہنچ کر آپا رک گئی اور مڑ کر اشفاق صاحب کو دیکھنے لگی۔ میں نے بانو آپا سے کہا "آپا چلیں۔ " وہ بولیں کہ "خان صاحب مصروف ہیں۔ وہ پہلے نکلیں گے، پھر میں۔ "

جب فرقہ واریت یہاں تک پہنچ جائے۔۔۔۔

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق فیض احمد فیض نے کہا تھا: جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے دل پہ گزری ہوئی کورقم کرنے کا مزہ ہی کچھ الگ ہے۔ پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، پرانےزخم ہرے ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے ماضی میں کھوجاتا ہے۔ مگر: یاد ِ ماضی عذاب ہےیارب! چھین لے مجھ سے حافظہ میرا میں تمہید کو طول دے کر آپ کی بوریت کا سبب نہیں بننا چاہتا۔ آج کی میری تحریر دراصل میری یادوں کے ایلبم کی ایک تصویر ہے، جسے میں لفظی جامہ پہنا کر آپ کی نذر کر رہا ہوں۔