کاروبار بمقابلہ نوکری



اگرآپ کسی یونی ورسٹی میں جائیں اور وہاں کے طلبہ وطالبات سے پوچھیں کہ آپ کیوں پڑھ رہے ہیں۔یقین کیجیے ، 98 فی صد کا جواب ہوگا کہ ہم ایک اچھی نوکری کے حصول کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ دو فی صد ہی ایسے بچے ہوں گے، جن کی سوچ اپنے کاروبار کی طرف مائل ہو گی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم نوکر بننے کے لیے پڑھتے ہیں۔

بڑا نوکر بننے سے چھوٹا مالک ہونا بہتر ہے۔نوکر ہمیشہ نوکر ہی رہتا ہے۔ اسے اپنے مالک کی ہر بات ماننی پڑتی ہے۔ اس کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی مرضی نہیں چلا سکتا ۔اسے اپنے مالک کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ وہ  نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ کرتا ہے، جس کا اسے حکم  دیا جاتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اپنا کام بہتر ہے نوکری سے۔




نوکری سے فقط گھر چلتا ہے۔ کاروبار سے نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ کاروبار نسل در نسل منتقل ہوتا جاتا ہے۔ نوکری میں یہ طاقت نہیں ہوتی ۔ نوکر ہمشہ تنگ رہتا ہےاورحالات کا رونا روتا رہتا ہے۔کاروباری شخص تنگ نہیں ہوتا۔ وہ حالات کا اس طرح رونا نہیں روتاجس طرح ایک نوکری کرنے والا شخص روتا ہے۔اس لیے میرے خیال میں اپنا کام بہتر ہے نوکری سے۔

نوکر کا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو بہت پریشان ہوتا ہے۔ وہ ایک اچھی نوکری کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ اسے اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب وہ در در بھٹکتا ہے کہ اسے ایک اچھی نوکری مل جائے۔ اس کی عزت ِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتےکہ جس سے وہ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کر سکے۔ ہاں، وہ  پھرایک افسر کا بیٹا ہوتا ہے۔ اسے اچھا نہیں لگتا کہ وہ ٹھیلا لگا لے یا کوئی پھیری والا بن جائے۔ اس کی زندگی کے وہ دن شدید کرب میں گزرتے ہیں جو زندگی کے حسین ترین لمحات کہلاتے ہیں۔ اس کے برعکس کاروباری شخص کا بیٹا جب جوان ہوتا ہے تو بہت خوش ہوتا ہے۔اس کا عزم اور حوصلے بلند ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والد کا کاروبار سنبھالتا ہے۔اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس کا گزر بسر کیسے ہوگا۔ وہ ٹھیلا لگانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا ۔ کیوں کہ اس کی رگوں میں پہلے سے محنت کی عظمت سرایت کر دی جاتی ہے۔اس لیے میرے خیال میں اپنا کام بہتر ہے نوکری سے۔

نوکر کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ وہ چھٹی نہیں کر سکتا ۔ وہ خوشی اور غم کے تمام موقعوں پر شریک نہیں ہو سکتا۔ اسے ہر وقت  اپنے مالک کی ناراضی کی خطرہ لا حق رہتا ہے۔ وہ اپنے مالک کی خوش نودی پر اپنی پوری سماجی زندگی قربان کر دیتا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ وہ خاندان اور دوستوں سے کٹا ہوا شخص بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ تنہا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فیملی کو بھی صحیح وقت نہیں دے  پاتا۔ اس کے برعکس کاروباری شخص جہاں چاہے جا سکتا ہے۔ جب چاہے چھٹی کر سکتا ہے۔ وہ ایک سوشل آدمی ہوتا ہے۔ ہر ایک کی خوشی اور غم میں شریک رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر ایک اسے پسند کرتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اپنا کام بہتر ہے نوکری سے۔

اگر دنیا کے امیر ترین لوگوں کے حالات ِ زندگی پڑھیں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ امیرترین اس وقت بنے، جب وہ اپنےکاروبار کی طرف آئے۔یعنی کاروبار اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ وہ آپ کو دنیا کے امیر ترین آدمیوں کی فہرست میں کھڑا کر سکتا ہے۔ اس کے بر عکس نوکری میں یہ طاقت نہیں ہوتی ۔ اس لیے میرے خیال میں کاروبار بہتر ہے نوکری سے۔

تحریر: نعیم الرحمان شائق

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے