مسعود احمد برکاتی ہم میں نہیں رہے



بچوں کے معروف اور مقبول ترین ماہ نامے "نونہال " کے مدیر ِ اعلیٰ جناب مسعود احمد برکاتی 11 دسمبر 2017 کو 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ گزشتہ 65 سالوں سے "نونہال" کی ادارت سنبھال رہے تھے۔ ہمدرد نونہال 1953ء میں حکیم محمد سعید شہید کی سرپرستی میں شروع ہوا تھا۔ برکاتی صاحب شروع سے اس معیاری رسالے کی ادارت سنبھال رہے تھے۔بچوں کے ادب میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بچوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 






میری نظر وں سے بچوں کے کئی  رسالے گزرے ہیں۔ بچپن میں دوسرے بچوں کی طرح مجھے بھی رسالے پڑھنے کا چسکا تھا۔ میں بھی دیگر بچوں کی طرح اپنی جیب خرچی جوڑ کر ماہ نامے لیتا تھا۔ انھیں پڑھتا تھا اور لطف اندوز ہوتا تھا۔ میں نے جو معیار "نونہال" کا دیکھا تھا، وہ کسی اور رسالے کا نہ دیکھ سکا۔"ہمدرد نونہال " کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ پچھلے مہینے کی 26 یا 27 تاریخ کو آجاتا تھا۔ باقی رسالےذرا تاخیر سے آتےتھے۔ اس میں بڑے اور قابل ادیب لکھتے تھے۔ میں اس رسالے کے ذریعے کئی ادیبوں سے متعارف ہوا تھا۔ سب ہی اچھا لکھتے تھے، مگر اشتیاق احمد اور معراج کے کیا کہنے۔ معراج بہت بڑے ادیب تھے۔ ان کا اسلوب نہایت پیارا تھا۔ معراج کا اصل نام کیا تھا، مجھے بھی نہیں معلوم، مگر وہ آج بھی بچوں کے دلوں میں "چالاک خرگوش" کی وجہ سے زندہ ہیں۔ پھر مسعود احمد برکاتی کی غیر ملکی کہانیوں کے تراجم رسالے میں چار چاند لگادیتے تھے۔ "اس مہینے کا خیال" بھی میں شوق سے پڑھتا تھا۔ سب سے معلوماتی اور بہترین سلسلہ "نونہال لغت" کا ہوتا تھا۔ اس سے مجھے اردو کےکئی الفاظ کے صحیح تلفظ معلوم ہوئے۔ درحقیقت اس جریدے سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس کی کئی کہانیاں مجھے آج تک یاد ہیں۔


برکاتی صاحب کی پوری  زندگی قلم و قرطاس کے دشت کی سیاری میں گزری۔ برکاتی صاحب کے پسندیدہ ادیب مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ برکاتی صاحب کا کہناتھا  کہ وہ ابو الکلام آزاد کے اسلوب کی کاپی کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے 15 برس کی عمر میں "لسان الصدق" نامی رسالے کا اجرا کیا تھا۔ جب کہ برکاتی صاحب ان کا ریکارڈ توڑتے ہوئے محض 14 برس کی عمر میں اپنے دادا برکات احمد کے نام پر "البرکات" نامی رسالے کا اجراء کیا تھا۔ پھر محض سولہ برس کی عمر میں انھوں نے انجمن ترقی اردو کے رسالے "معاشیات" کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے۔ جنھیں بابائے اردو مولوی عبد الحق بہت پسند کرتے تھے۔ 1948ء میں وہ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں حیدرآباد میں رہائش اختیا ر کی۔ پھر کراچی آگئے۔ 1952ء میں حکیم محمد سعید شہید کے ادارے "ہمدرد" سے وابستہ ہو گئے۔ 1953ء میں جب حکیم محمد سعید نے "ہمدرد نونہال " کا آغاز کیا تو انھیں اس رسالے کا مدیر بنادیا۔ پھر اس کے بعد برکاتی صاحب ہمیشہ کے لیے اس رسالے سے وابستہ رہے۔ 

برکاتی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ وہ اردو، فارسی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ روسی زبان سے بھی وقفیت رکھتے تھے۔ وہ معروف طبی جریدے "ہمدرد صحت"کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض بہ حسن وخوبی سر انجام دیتے رہے۔ وہ یونیسکو کے رسالے کورئیر کے اردو ایڈیشن"پیامی" کی بھی مدیر رہے۔"پیامی" کی وجہ سے انھیں پیرس جانے کا موقع ملا۔برکاتی صاحب نے اپنی زندگی میں بہت سی نادر کتابیں تصنیف کیں۔ جن میں سے "دو مسافر دو ملک"، "صحت کی الف بے"، "چھوٹی سی پہاڑی لڑکی" قابل ِ ذکر ہیں۔ 

افسو س کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میڈیا نے انھیں وہ کوریج نہیں دی، جس کے وہ مستحق تھے۔ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ دلیپ کمار کی سالگرہ کے لیے ہزاروں لفظ قربان کرنے والے میڈیا نمائندوں کے پاس مسعود احمد برکاتی جیسی صاحبِ علم، وطن دوست اور مخلص شخصیت کے لیےشاید سو لفظ بھی نہیں تھے۔نہ جانے ہم کیوں صاحبِ علم شخصیات کو چھوڑ کر مسخروں اور فن کاروں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جو قوم علم دوست لوگوں کی قدر نہیں کرتی ، وہ علمی میدان میں پیچھ رہ جاتی ہے۔
 آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے (آمین)
تحریر: نعیم الرّحما ن شائق  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا انجام

آپ ﷺ کے عہد ِ مبارکہ میں لکھے گئے احادیث کے نسخے