تعلیم میں حوصلہ افزائی کی اہمیت

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

     خلیق ایک کُند ذہن بچہ تھا۔ وہ سبق یاد کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا، مگر اسے  صحیح طریقے سےیاد نہیں ہوتا تھا۔ اس کوپڑھانے والے تمام  اساتذہ اس سے نالاں تھے۔ حالاں کہ اس  میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ تقریباً سارے استاد اسے  ہر روز ڈانتے تھے۔ کبھی کبھار کسی سخت گیر استاد سے اسے ماربھی کھانی پڑ جاتی تھی۔ وہ کوشش کرتا تھا کہ استادوں کو سبق یاد کرکے خوش کر سکے، مگر بے سود۔ اس ضمن میں  اس کی ساری کوششیں اکارت جاتی تھیں۔ روزانہ روزانہ کی ڈانٹ اور بے عزتی سے بھر پور جملے سن کرا ب وہ کسی حد تک ڈھیٹ ہو چکا تھا۔ اب اس پر استادوں کی ڈانٹ اور غصّہ ، بلکہ مار بھی کچھ خاص اثر نہیں کرتی تھی۔



ایک دن سکول میں ایک نئے سر آئے۔ ان کا نام سر امتیاز تھا۔ وہ بڑی عمر کے نہایت تجربہ کار استاد تھے۔ یہ استاد باقی تمام استادوں سے انتہائی مختلف تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے ان کو بچوں کی نفسیات پر خاصا عبور حاصل ہو گیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کس بچّے کو کس طرح چلانا ہے۔ وہ خود بھی بچّوں والے تھے اور سکول کے بچّوں کو بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے تھے۔

            پہلے دن ہی خلیق کی کارکردگی دیکھ کر امتیاز صاحب سمجھ گئے تھے کہ پڑھائی میں اس کی کم زوری مصنوعی نہیں ،قدرتی ہے۔ یہ بچہ فطری طور پر ہی کُند ذہن واقع ہوا ہے۔ گو یہ بچّہ کم زور ہے، لیکن محنتی ہے۔ یہ سبق یاد کرنے کی بہت کوشش کرتا ہے، لیکن اسے یاد نہیں ہوتا۔ امتیازصاحب کو ایسے بچے پڑھانے میں مزہ آتا تھا۔ کچھ دن بعد انھوں نے کلاس میں ٹیسٹ کا اعلان کیا۔ تین سوال یاد کرنے کے لیے دیے۔  دوسرے دن بچوں نے ٹیسٹ دیا تو بہت زیادہ ذہین بچوں  نے تینوں سوالوں کا صحیح ٹیسٹ دیا ۔ اوسط بچوں نے دوسوال صحیح کیے۔ سب سے خراب ٹیسٹ خلیق کا تھا، کیوں کہ وہ کلاس کا سب سے کم زور طالب ِ علم تھا۔ سر امتیاز کے سامنے خلیق کی کاپی آئی توانھوں نے  اس کو چیک کیا۔ پھر بولے، ”خلیق بیٹا! کوئی بات نہیں ۔ آپ نے تین میں سے ایک سوال کا جواب لکھا، لیکن جو لکھا ٹھیک لکھا۔ ماشاء اللہ! آپ بہت محنتی  ہیں۔ مزید محنت کریں۔ ان شاء اللہ ، آپ بھی ایک دن باقی بچوں کی طرح قابل  ہو جائیں گے۔ “ خلیق ، جو نئے سر کی ڈانٹ سننے کا منتظر تھا، حیران  ہوگیا۔ آج تک سکول کے کسی استاد نے اسے اس طرح نہیں کہا تھا۔ خلیق کو استاد کا رویّہ انتہائی اچھا لگا۔ اس نے عہد کر لیا  کہ کچھ بھی ہوجائے، سر امتیاز کو صحیح طریقے سے ٹیسٹ دوں گا۔

            کچھ دن بعد  سر امتیاز نے کلاس میں پھر ٹیسٹ کا اعلان کیا۔ اس بار بھی انھوں نے بچّوں کو تین سوال یاد کرنے کے لیے کہا۔ خلیق نے دل ہی دل میں سوچ لیا کہ وہ اس بار سارے سوالوں کا صحیح ٹیسٹ دے گا۔ چناں چہ گھر جاکر اس نے  سر امتیاز کا ٹیسٹ یاد کرنا شروع کر دیا۔ خوب محنت کی ۔ بالآخر اسے تین کی بجائے دو سوال یا د ہوگئے۔ تیسرا سوال یاد کرنے کی کوشش کی، مگر نہ کر سکا۔ دراصل وہ یاد کرتے کرتے کافی تھک چکا تھا۔ دوسرے دن سکول میں ٹیسٹ ہوا تو حسب ِ معمول ذہین بچوں نے تینوں سوالوں کا درست ٹیسٹ دیا۔ اس بار خلیق نے دو سوالوں کا   درست ٹیسٹ دیا۔ یہ وہی خلیق تھا، جسے ایک سوال بھی بہ مشکل یاد ہوتا تھا۔ لیکن سر امتیاز کے حوصلہ افزا جملوں اور رویّے نے اس یک سر تبدیل کر دیا تھا۔ جب سر امتیاز نے خلیق کی کاپی چیک کی تو انھیں کافی خوشی ہوئی ۔ خلیق  نے دو سوال لکھے تھے اور اس میں کچھ چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی کی تھیں۔ سر امتیاز نے جان بوجھ  کر ان غلطیوں کو  مارک نہیں کیا۔ خلیق کی کاپی چیک کرنے کے بعد سرنے خلیق سے کہا، ”خلیق! ماشاءاللہ! آج آپ نے بڑا زبردست ٹیسٹ دیا۔ “ پھر بچوں سے بولے،” خلیق کے لیے تالیاں بجائیں۔“ بچّو ں نے سر کے حکم کی تعمیل کی۔ خلیق کی خوشی دیدنی تھی۔

            سر امتیاز کی مسلسل  حوصلہ افزائی خلیق کی پڑھائی  میں بہتری لا رہی تھی۔ امتیاز صاحب تقریباً ہر ٹیسٹ کے بعد خلیق کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ا نھوں نے پہلے دن سے ہی خلیق کو یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کلاس کا سب سے  کم زور بچّہ ہے۔  انھوں نے خلیق کے  ذہن میں یہ بات بٹھادی  تھی کہ انسان مسلسل کوشش اور محنت سے مشکل سے مشکل کا م بھی سر انجام دے سکتا ہے۔

            امتحان ہوا تو خلیق صرف ایک مضمون میں پاس تھا ۔وہ  مضمون تھا انگریزی، جو سر امتیاز پڑھاتے تھے۔ دراصل خلیق نے باقی مضامین کی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ صرف سر امتیاز کا مضمون یا دکیا تھا۔ خلیق  نے ضد کی وجہ سے باقی مضامین نہیں پڑھے۔ اسے دیگر استادوں کا سخت رویّہ اچھا نہیں لگتا تھا، کیوں کہ باقی مضامین کے استاد ہر وقت اسے ڈانٹتے تھے اور یہاں تک کہ مارتے بھی تھے۔

            نتیجے  کے اعلان کے دوسرے دن پرنسپل صاحب نے استادوں کی میٹنگ کی۔ سرامتیاز کی خوب تعریف کی ۔ دیگر استادوں کو سمجھا یا کہ امتیاز صاحب کی طرح بچوں سے اپنا رویّہ اچھا رکھیں۔ خاص طور پر کم زور بچّوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ تاکہ سر امتیاز کی طرح ان کے مضامین میں  بھی کند ذہن بچّے  اچھے نمبروں سے پاس ہو سکیں۔

Comments

Popular posts from this blog

رویّہ

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

اتحاد و اتفاق