ہمارے ہیڈ سر
تحریر:
نعیم الرّحمان شائق
قسط
نمبر 2
ہیڈ سر کی طرف سے انعام
میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ سر
عبد الوہاب ہمیں انگلش گرامر پڑھاتے تھے۔وہ بہت اچھے طریقے سے گرائمر سمجھاتے
تھے۔ ان کے گھنگریالے بال تھے اور وہ چشمہ پہنتے تھے۔ وہ ہمیں Parts of Speech سمجھاتے تھے۔
پہلے انھوں نےNoun کے بارے میں سمجھایا، پھر Pronoun کے
بارے میں ۔ غالباً جب وہ Adjective
پر پہنچے تو انھوں نے کہا: ”بچو! آج سمجھانے کے
بعد آپ کا ٹیسٹ بھی لوں گا۔“ چناں چہ سمجھانے کے بعد ہماری استعداد کے مطابق انھوں
نے ٹیسٹ لیا۔ میں نے سب سے اچھا ٹیسٹ دیا۔ ہمارے سکول میں ٹیسٹ کے لیے الگ سے کاپی
ہوتی تھی۔ انگلش ٹیسٹ کی الگ کاپی ہوتی تھی۔ جب کہ اردو اور اسلامیات کا ٹیسٹ ایک ہی کاپی میں ہوتا تھا۔ سرعبد الوہا
ب نے میرا ٹیسٹ چیک کیا تو بالکل درست تھا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر وہ کاپی کے پچھلے
اوراق دیکھنے لگے تو ہر ٹیسٹ میں Good,
Very Good, Excellent وغیرہ جیسے
ریمارکس تھے۔ وہ اور زیادہ خوش ہوئے۔
انھوں نے اپنے ایک ہاتھ سے میرا
ہاتھ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے میری کاپی ۔ پھر کلا س سے باہر چل دیے۔ میں سہم گیا
کہ سر کو کیا ہوگیا۔
عبد الوہاب سر مجھے ہیڈ سر کے آفس میں
لے گئے۔ ہیڈ سر حسب ِ معمول کام میں مصروف تھے۔ سر نے ہیڈسر کے سامنے میری کاپی
رکھی اور میرے بارے میں تعریفی کلمات کہے۔
اب ہیڈ سر بھی میری کاپی کو غور سےدیکھنے لگے۔ وہ بہت خوش ہوئے ۔ پھرانھوں
نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور مجھے
دے دیا۔ میں نے پہلے تو لینے سے انکار کر دیا، پھر ہیڈ سر اور سر عبد الوہاب کے
اصرار پر لے لیا۔ اس زمانے میں سو روپے بہت بڑی رقم ہوتی تھی۔ کاش! مجھے اس وقت
اتنا شعور ہوتا کہ یہ سوروپےکتنے قیمتی ہیں تو اس کو زندگی بھر خر چ نہ کرتا۔ لوگ
چلے جاتے ہیں، پر اپنے پیچھے دل کو کرب میں مبتلا کر دینے والی یادیں چھوڑ جاتے
ہیں۔
ہیڈ سر کی نصیحتیں:
ہیڈ سر بہت کم کلاسزمیں آتے تھے۔ وہ زیادہ تر سلیبس، پیپرز وغیرہ
کے کاموں میں مصروف رہتے تھے، مگر جب بھی آتے تو کوئی نہ کوئی نصیحت کر کے جاتے
تھے۔ ایک دن کلاس میں آئے تو کہنے لگے، ” بیٹا، یاد رکھو۔ بچہ سکول سے تعلیم سیکھتا ہے اور
گھر سے تربیت سیکھتا ہے۔ بچّے کو گھر میں جس طرح کا ماحول ملے گا، وہ اسی میں ڈھل
جائے گا۔ تعلیم و تربیت دونوں سکول نہیں دے سکتا۔ “ ان کی یہ بات بالکل درست تھی۔ ہم
نے اکثر والدین کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے گھر کا ماحول ٹھیک نہیں کرتے اور سکولوں
میں استادوں سے آکر کَہ جاتے ہیں کہ ہمارے بچّے کو ٹھیک کرد و۔ یہ بات نہیں مانتا۔
گھر میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے وغیرہ۔
ایک دن کلاس میں آئے اور کہنے لگے، ”
بچّو! سکول میں آپ کا ایک ایک منٹ بہت
قیمتی ہے اور ہمارے لیے امانت ہے۔ اگر ہم نے اس امانت میں خیانت کی ۔۔۔ دوسرے
لفظوں میں اگر ہم نے آپ کا وقت ضائع کیا اور آپ کو اچھے طریقے سے نہیں پڑھایا تو
قیامت والے دن ہم سے پوچھ گچھ ہو گی۔ ہم
سے اس بات کا حساب لیا جائے گا کہ ہم نے بچوں کا وقت ضائع کیوں کیا؟ “ سبحان اللہ!انھوں
نے کتنی قیمت بات کہی۔ اگر ہر استاد اسی طرح سوچنا شروع کر دے تو بچّوں کو واقعی
بہت فائدہ ہوگا۔
ایک بار نیا سیشن شروع ہوا۔ ہم نے نئی
کتابیں خرید لی تھیں۔ ہیڈ سر جماعت میں
آئے۔ کہنے لگے، ”بچو! آپ اپنی پرانی کتابیں کل دفتر میں جمع کر ادیں۔ بہت سارے
بچّے ایسے ہیں، جن کے والدین کورس خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ
پرانی کتابیں ان بچوں کو دے دوں۔“ ہمیں ہیڈ سر کی یہ بات بہت پسند آئی۔ پھر کہا، ”
بچو! کتابوں کی حفاظت کیا کریں۔ پہلے دن سے ہی اس پر کور لگا لیا کریں یا جِلد کرا
لیا کریں۔کتابوں پر پین سے نہ لکھا کریں۔ سوالات کے نشانات لگانے ہوں تو پینسل
استعمال کیا کریں۔ کتابیں بڑی قیمتی ہوتی ہیں۔ آپ کے پڑھنے کے بعد یہ کسی اور کے
کام آسکتی ہیں۔ اگر آپ کتاب میں پین استعمال کریں گے تو کتابیں خراب ہو جائیں گے،
کیوں کہ پین کے نشانات نہیں مٹتے۔ “ ان کی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی۔ میں آج بھی اپنے شاگردوں کوکتاب کے میں پین سے
لکھنے سے روکتا ہوں۔ پہلے دن ہی انھیں
اپنے ہیڈ سر والی نصیحت کرتا ہوں۔
طالب علموں سے میری گزارش:
میں یہاں تمام طالب علموں سے گزارش کروں گا کہ وہ کتابوں کی
حفاظت کیا کریں۔ کتابیں واقعی قیمتی ہوتی ہیں۔ کتابوں میں پین استعمال نہ کریں۔ اور خدارا کتابوں کاکوئی صفحہ نہ پھاڑیں۔ اگر کسی صفحے کی واقعی
ضرورت ہوتو فوٹو کاپی کروا لیا کریں۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس
سلسلے میں ہمارے طلبہ انتہائی لا پروا واقع ہوئے ہیں۔ پرانی کتابوں کی دکان میں
جائیں تو ہر کتاب پین کے نشانات سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ کتابوں کے کئی صفحات غائب
ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کتابیں دوسرے
طلبہ کے لیے ناکارہ ہوجاتی ہیں۔ بہت سے طلبہ غریب ہوتے ہیں۔ وہ نئی کتابیں خریدنے
کی سکت نہیں رکھتے ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار نئی کتابیں ختم ہو جاتی ہیں تو طلبہ
کو پرانی کتابیں خریدنی پڑ جاتی ہیں۔ اس
لیے طلبہ کو چاہیے کہ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے
کہ یہ کتابیں کسی کے کام آ سکتی ہیں، پہلے دن سے ہی کتابوں کی حفاظت کریں۔ نہ ان
کا کوئی صفحہ پھاڑیں ، نہ اس پر پین سے
لکھیں۔
ہیڈ سر کی مردم شناسی:
سر خلیل ہمیں ریاضی پڑھاتے تھے۔ وہ
ریاضی کے بڑے قابل استاد تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ جب میں پہلی بار ہیڈ سر سے
ملا تو انھوں نے مجھے غور سے دیکھا ۔ پھر کہا،”سر، آپ ریاضی کے اچھے استاد ہوں گے،
لیکن آپ بچوں کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے۔ آپ میں کلاس کو سنبھالنے کی صلاحیت اس
طر ح نہیں ہے، جس طرح ایک استاد میں ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنی ہنسی
کو کنٹرول نہیں کر پاتے۔“ سر خلیل کہتے ہیں کہ میں ہیڈ سر کی بات سن کر حیران ہو
گیا۔ واقعی مجھ میں یہ خامی تھی۔ میں ریاضی اچھی پڑھا لیتا تھا، لیکن ہیڈ سر کی
بتائی گئی خامی کی وجہ سے بچّوں کو کنٹرول نہیں کر پاتا تھا۔ مجھے ہیڈ سر کی مردم
شناسی پر بڑا تعجّب ہوا۔ حالاں کہ میری ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ مجھے نہیں
جانتے تھے اور میں انھیں نہیں جانتا تھا۔ وہ پہلی ملاقات میں ہی جان گئے کہ میں کس
نوعیت کا استاد ہوں۔
نوٹ: سر غلام نبی قریشی کے بارے میں قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میرے تمام آرٹیکل پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Comments