ہمارے ہیڈ سر
تحریر:
نعیم الرّحمان شائق
قسط
نمبر 3
پسندیدہ اخبارات اور لکھاری
شروع شروع میں ہیڈ سر کے آفس میں روزانہ”ایکسپریس“
اخبار آتا تھا۔ ان دنوں سوشل میڈیا اتنا مشہور نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کے گھروں میں
باقاعدگی سے ان کا پسندیدہ اخبار آتا تھا ۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ والدین کے
ساتھ ساتھ بچّے بھی اخبار پڑھ لیا کرتےتھے۔ اتوارکے روز اکثر بڑے اخبار میں کوئی
میگزین بھی ہوتا تھا۔ اس میگزین کی وجہ سے بہن بھائیوں میں خوب لڑائی ہوتی تھی۔
بڑا اچھا دور تھا۔ گھروں میں کتابیں بھی ہوتی تھیں۔ بچّے اخبارات ، میگزین اور کتابیں پڑھتے تھے۔ ان
سے ان کی اردو اچھی ہوجاتی تھی۔ اب تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہم سے اور
ہمارے بچّوں سے اخبارات اور کتابیں پڑھنے کی عادت چھین لی ہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہیڈ سر شروع میں صرف ”ایکسپریس“
کا مطالعہ کرتے تھے۔بعد میں اخبارات میں ان کا شغف مزید بڑھ گیا۔ پھر وہ
”ایکسپریس“ کے ساتھ ساتھ ”امت “ کا بھی مطالعہ کرنے لگے۔ اس کے علاوہ ”القلم“ کا
بھی مطالعہ کرتے تھے۔ ”القلم “ ہفتے میں ایک بار آتا تھا۔ وہ جاوید چوہدری کے کالم
بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔یعنی ان کےپسندید ہ لکھاری جاوید چوہدری تھے۔ جب
ہم نے میٹرک پاس کی تو ہمیں سمجھ میں نہیں
آرہاتھاکہ ہیڈ سر کو تحفے میں کیا دیں۔ اس سلسلے میں کلاس ٹیچر نے ہماری رہنمائی کی ۔ ہمیں ٹیچر نے بتایا کہ ہیڈ سر کو جاوید چوہدری
کے کالم اچھے لگتے ہیں، لہٰذا آپ ان کے لیے جاوید چوہدری کے کالم کے مجموعے”زیروپوائنٹ“
کی فلاں جلد خرید لیں۔ کون سی جلد بتائی؟ یہ مجھے اب یاد نہیں آرہا۔شاید ہیڈ سر کے پاس ”زیرو پوائنٹ“ کی پہلی اور دوسری
جلد تھی ۔ کلاس ٹیچر نے تیسری جلد خریدنے کے لیے کہا۔ ہماری کلاس نے سر کو ایک بڑا
سا گلوب اور ”زیروپوائنٹ“ بطورِ تحفہ دیے۔
ہیڈ سر کی ایک اچھی عادت:
ہیڈ سر کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ جو تحریر ان کو اچھی
لگتی تھی، اس کی فوٹو کاپی کروا کر دفتر
کے باہر لگوادیتے تھے، یا کسی ایسی جگہ چسپاں کر وادیتے تھے ، جہاں بچوں کا گزر زیادہ ہو۔ ان
کی خواہش تھی کہ بچّے بھی یہ پڑھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت کم بچّے ہی ان تحاریر کو پڑھتے تھے۔ باقی بس یوں ہی
دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ بچّے شایدیہی سوچتے ہوں گے کہ کون اتنی دیر رُکے اور کھڑے
ہوکر ان کو پڑھتا رہے ؟ہیڈ سر سکول کے
ساتھ ساتھ جس مسجد میں نماز ادا کرنے جاتے
تھے،وہاں بھی اپنی پسندیدہ تحریریں چسپاں کر وا دیتے تھے۔ سکو ل کی طرح مسجد کے
نمازی بھی بس یوں ہی دیکھ کر چلے جاتے تھے۔ بہت کم نمازی ایسے ہوتے تھے ، جو کچھ
دیر رک کر ان تحاریر کو پڑھتے تھے۔
”بیٹا، آپ میرے ہاں آجائیں“
ہیڈ سر ہمارے پڑوسی بھی تھے۔ مسجد میں ان سے ملاقات ہوتی
رہتی تھی۔ ایک دن وہ مسجد میں آئے تو ان
سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پوچھا ، ”نعیم الرّحمان، آج کل کیا کر رہے ہو؟“ وہ ہمیشہ
مجھے نعیم الرّحمان ہی کہتے تھے۔ کبھی نعیم نہیں کہا۔
میں نے کہا ،”سر، سکول میں پڑھا رہا ہوں۔“
انھوں
نے کہا، ”بیٹا، آپ میرے ہاں آجائیں۔ اپنے سکول میں کام کریں۔ “
میں
نے ان کی ہاں میں ہاں ملادی۔
ہیڈ سر کے ساتھ کام کرنے کا عزاز:
یہ میرے لیے واقعی خوش قسمتی کی بات ہے کہ مجھے اپنے سکول
کے پرنسپل اور عظیم استاد محترم سرغلام نبی قریشی مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز
حاصل ہوا۔ ایک ایسا اعزاز، جس پر میں زندگی بھر فخر کروں گا۔ شاید میں نے ان کے
ساتھ ڈیڑھ دو سال کام کیا ۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت کچھ سیکھنے کو
ملا۔ وہ واقعی ایک عظیم انسان تھے۔ یہ ہیڈ سر کی مہربانی تھی کہ انھوں نے عام
استادوں کی طرح مجھے کسی کلاس میں کوئی
مضمون پڑھانے کے لیے سکول میں نہیں رکھا، بلکہ مجھے اپنے ساتھ دفتر میں رکھا۔ میں ان کے تصنیفی و تحریری کاموں میں ہاتھ بٹا تا تھا
اور ان سے بہت کچھ سیکھتا تھا۔
میں نے ہیڈ سر جیسا پرنسپل زندگی بھر نہیں دیکھا:
حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے تیرہ سال پرائیویٹ سکولوں کے نذر کر دیے۔ میں نے بہت سارے سکولوں میں کام کیا۔ کام کے
دوران مجھے بہت سے سکولوں کے منتظمین اور
پرنسپل حضرات سے واسطہ پڑا ۔ میں نے بہت قریب سے ان کا مشاہدہ کیا۔ لیکن میں نے جتنا محنتی، مخلص اور اپنے کام سے ایمان دار اپنے ہیڈ سر کو پایا،
کسی کونہیں پایا۔بھلا ایسا کون سا پرنسپل ہوگا، جو اپنے سکول کا ایک ایک پیپر خود
بنائے۔ساری کلاسوں کے نصاب بھی خودمرتب کرے۔ پھر خود ہی ہر سال نصاب میں تراش خراش
کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سرکاری اور
پرائیویٹ پبلشرز کی کتابوں سے غیر مطمئن ہو کر پہلی سے آٹھویں تک کی انگلش، انگلش گرائمر اور اردو کی کتابیں، جب
کہ تیسری سے پانچویں تک کی سائنس کی
کتابیں بھی تحریر کر دے۔ اور وہ بھی عمر کے اس حصّے میں ، جس میں لوگ کام سے زیادہ
آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ خوبیاں صرف اور صرف ہمارے ہیڈ سر میں تھیں۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہوں جسے:
ہیڈ سر صبح کی نماز پڑھ کر گھر میں نہیں جاتے تھے، بلکہ سکول
کے آفس میں بیٹھ کر کام کرتے رہتے تھے۔ حالاں کہ
ان کی عمر بہت ہوچکی تھی۔ بوڑھے ہوگئے تھے۔ کافی بیمار تھے۔ کھانسی آتی تو رکنے
کا نام نہیں لیتی تھی۔ اس کے باجود بیٹھے رہتے تھے۔بس تحریر ی و تصنیفی کام میں
مصروف رہتے تھے۔ کبھی سکول کے پیپرز بنارہے ہوتے تو کبھی سلیبس کی کاٹ چھانٹ کر
رہے ہوتے۔ کبھی اردو کی کتاب کامواد تیار کر رہے ہوتے تو کبھی سائنس کی کسی مشکل اصطلاح کی آسان سی تعریف کے
بارے میں سوچ رہے ہوتے تھے۔جب ان کی کھانسی حد سے زیادہ بڑھ جاتی تو میز کے نیچے
سے سادہ پانی کی ایک بڑی سی بوتل اٹھاتے، گلاس میں تھوڑا سا پانی انڈیلتے، اس کو
پیتے اور پھر کام شروع کر دیتے تھے۔ اللہ! اللہ! یہی ان کا علاج تھا۔ بہت کم ڈاکٹر
کے پاس جاتے تھے۔ شاید عمر کے اس نازک حصّے میں بھی ان کو یہ فکر کھائے جارہی ہوگی
کہ کہیں میرا کام ادھورا نہ رہ جائے۔ کہیں
ایسا نہ ہو کہ میں ڈاکٹروں کے پاس بار بار جاکر اپنا وقت 'ضائع' کردوں اور میرا تصنیفی کا م۔۔۔یعنی پہلی سے اٹھویں تک
کی اردو کی کتابوں اور تیسری سے پانچویں تک کی سائنس کی کتابوں کا کام ۔۔۔ادھورا ہی
نہ رہ جائے۔ ہمارے ہیڈ سر تقریبات میں بھی
زیادہ نہیں جاتے تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد محض تعلیم کی بہترین و ترویج و اشاعت
تھا۔ ایک بار اتوار والے دن مجھے بلالیا۔ میں نے دیکھا کہ ہیڈ سر چھٹی والے دن بھی
کام میں مصروف ہیں۔ سخت غصّے میں ہیں۔ غصّے میں اس لیے کہ کمپیوٹر والا نہیں آیا
تھا۔ کام رک رہا تھا۔ ایسے انسان اب کہا ں ملتے ہیں! قحط الرجال کا دور دورہ ہے۔عظیم لوگ گزر گئے۔ ہم
جیسے ناکارہ رہ گئے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔
”ہمارے ہیڈ سر “ کی قسط نمبر 1 پڑھنے کے لیے یہاں کلک
کریں۔
قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک
کریں۔
ٹیگز: آئی ٹی، ادبی، اسلامی، بین الاقوامی،تاریخی،تعلیمی،شخصیات، طنز و مزاح، کتابیں ، معاشرتی، ملی ، میری شاعری، نعیمیات

Comments