ہمارے ہیڈ سر

  

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

قسط نمبر 1

سکول میں پہلا دن

            یہ 5 جنوری 2002ء کا دن تھا۔ ابّو مجھے برائٹ پبلک سکول میں داخلے کے لیے لے گئے۔ جیسے ہی ہم دفتر میں داخل ہوئے، ہمیں دو شخصیات کرسیوں پر براجمان نظر آئیں۔ان میں سے ایک سکول کے  بانی اور پرنسپل محترم سر  غلام نبی قریشی مرحوم تھے۔ ان کو ہم ہیڈ سر کہتے تھے۔ دوسرے سر عبد الستّارمرحوم تھے۔ ہم ان کو سر ستّار کہتے تھے۔

            ہیڈ سر، والد صاحب کو بڑے اچھے طریقے سے ملے۔  وہ ابّو کے دوست بھی تھے۔ ابّو نے ان کو مدّعا بتایا تو  وہ بڑے خوش ہوئے۔ ابّو نے ان کو بتایا کہ بچّہ پہلے مدرسے میں ٹیوشن پڑھتا تھا۔وہاں یہ چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اب آپ اس کا ٹیسٹ لے لیں ۔ یہ جس کلاس کے لائق ہو، اس میں بٹھادیں۔ہیڈ سر نے دفتر کے سامنے موجود کلاس سے انگریزی کی کتاب منگوائی۔ یہ دوسری کلاس کی کتاب تھی، جو رہبر پبلشرز کی شائع کردہ تھی۔ ہیڈ سر نے اس کتاب کے پہلے سبق کا دوسرا یا تیسرا پیرا گراف پڑھنے کو کہا۔ میں نے  اپنی تعلیمی لیاقت کے مطابق انگریزی عبارت کسی حد تک اٹک اٹک کر پڑھ لی۔ایک لفظ بالکل غلط پڑھ گیا۔ وہ لفظ تھا ‘kind’ ۔ میں نے اسے 'کائنڈ' کی بجائے 'کِنڈ' پڑھا۔ ہیڈ سر نے میری اصلاح کی۔ پھر ابّو سے کہا، ”بچّہ ذہین ہے۔ اگر چہ یہ مدرسے میں چوتھی کلاس پڑھتا تھا، مگر میرا مشورہ ہے کہ اسے دوسری میں بٹھا دیں۔ دو مہینوں کے بعد امتحان ہے۔ پھر یہ تیسری میں چلا جائے گا، بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس کو ٹیوشن  میں بھی داخل کروادیں۔ دوسری جماعت کی ٹیچر گھر میں بچّوں کو پڑھاتی ہیں۔ محنتی ہیں۔ انھیں وہیں داخل کر وادیں، جب تک امتحان نہیں ہوتا۔ “ ابّو نے ہامی بھرلی۔



ہیڈ سر کا ایک تعلیمی اصول

            بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہیڈ سر کا ایک  تعلیمی اصول بتادوں۔ وہ یہ تھا کہ وہ محض عمردیکھ کر بچّے کی کلاس کا فیصلہ نہیں کرتے تھے،  جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر کیا جاتا ہے۔ بچّے کی عمر دیکھ کر کلاس کا فیصلہ اس کے حق میں اچھاثابت نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے، ایسا بچّہ بہت زیادہ تعلیم حاصل کرلے، مگر اس میں وہ قابلیت و صلاحیت پیدا نہیں ہوگی، جو ایک پڑھے لکھے شخص میں ہوتی ہے۔ہمارے ہیڈ سر بچّے کی تعلیمی  لیاقت اور قابلیت  کو  دیکھ کر فیصلہ کرتے تھے۔ ہم نے اپنے سکول میں بڑی عمر کے بچّوں کو چھوٹی کلاسوں میں پڑھتے دیکھا تھا۔اگر چہ  میری عمربھی  کچھ زیادہ تھی، مگر ہیڈ سر نے میری قابلیت و صلاحیت کو دیکھ کر جو فیصلہ کیا، وہ میرے لیے  بعد میں بہترین ثابت ہوا۔

ہیڈ سر کی ایک سنہری بات

            بہرحال۔۔۔ ہیڈ سر  چوں کہ ابّو کے دوست تھے، اس لیے ابّو اور ہیڈسر کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے۔مجھے وہ سب تو یاد نہیں ہیں،البتّہ ایک بات یاد ہے۔ ہیڈ سر انگریزی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ انھوں نے  ابّو سے کہا، ”دیکھیں انگریزی تعلیم بہت ضروری ہے۔ اس تعلیم کے ذریعے ہم اپنا دین غیرمسلموں تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی انگریز آجائے اور ہم سے ہمارے دین کے بارے میں پوچھے تو ہم اس کو کیا جواب دیں گے، اگر ہمیں انگریزی ہی نہیں آتی ہو گی؟“ ابّو اور مجھے، دونوں کو ان کی یہ بات پسند آئی۔ ان کی یہ بات بالکل درست تھی، بلکہ سنہری بات تھی۔  جو لوگ خواہ مخواہ انگریزی زبان سے نفرت کرتے ہیں، انھیں اس سلسلے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ انگریز ی تو محض زبان ہے۔ اس سے نفرت کیوں کر؟

سکول ٹیچر کی محنت :

            سکول میں میرا داخلہ ہوگیا۔ میں خوب محنت کرتا تھا۔ صبح سکول جاتا اور دوپہر کو جس ٹیچر کےپاس پڑھتا تھا، ان  کے ہاں ٹیوشن پڑھنے جاتا تھا۔ ٹیچر مجھ پر بہت محنت کرتی تھیں۔ دوپہر ڈھائی بجے سے لے کر رات کے ساڑھے سات، آٹھ  بجے تک میں ٹیوشن میں ہوتا تھا۔ امتحان میں صرف دو مہینے بچے تھے۔ ان دو مہینوں میں مجھے تمام مضامین کا کام بھی مکمّل  کرنا تھا اور پھر اس کا م کو یاد بھی کرنا تھا۔ میں نے ٹیوشن میں تمام کام بھی مکمل کیا اور  سار ا یاد بھی کر لیا۔ٹیچر کی محنت نہ ہوتی تو میں ایسا نہ کرپاتا۔ میں اپنی سکول ٹیچر کا  یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔

ولید کے بال:

            ولید میرا پڑوسی بھی تھا اور ہم جماعت بھی۔ وہ آج کل بحرین کی پولیس میں ہے۔ اس نے ٹیچر کا گھر دیکھا ہوا تھا۔پہلے دن  ٹیچر نے ولید  سے کہا کہ آپ نعیم الرّحمان کو  میرے گھر تک پہنچا دیں ۔ انھیں معلوم نہیں ہے کہ میرا گھر کہا ں ہے۔ ولیدجب سکول آتا تو بالوں کو خوب سنوار کر آتا تھا۔ بہت سارا تیل لگا کر آتا تھااور کنگھی بھی اچھے طریقے سے کرکےآتا تھا۔ اس لیے اگر اس کے بال بڑے بھی ہوتے تو وہ بچ جاتا۔ پکڑا نہیں جاتا تھا۔ ولید شاید مدرسے جارہا تھا۔ اس کے سر پر ٹوپی تھی۔ میں نے اسے راستے میں پکڑلیا اور کہا کہ مجھے ٹیچر کے گھر چھوڑ آؤ۔ ولید میرے ساتھ چل پڑا۔ ٹیچر کے گھر کے قریب پہنچ کر اسے احساس ہوا کہ اس کے بال تو بہت بڑے ہیں۔ ٹیچر اتنے بڑے بال دیکھ کر اسے ڈانٹیں گی۔ ولید کے سر پر گتّے والی ٹوپی تھی۔ اس نے ٹوپی اتاری اور بڑھے ہوئے بالوں کو  بڑی مشکل سے اوپر یک جا کیا ۔ پھر زبردستی اوپر ٹوپی پہن لی۔ مجھے بہت ہنسی آئی۔

            ہیڈ سر پر مضمون لکھتے ہوئے اس واقعے کو لکھنا ضروری تھا۔ دراصل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس زمانے میں  بچوں کے دلوں میں اساتذہ کا کس حدتک احترام  اور ڈر ہوتا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب نہ وہ ڈر رہا ، نہ احترام ! ہمارے ہاں تعلیم کی کمی  کی ایک بڑی  وجہ اساتذہ کا احترام نہ کرنا  بھی ہے۔

نتیجے کا اعلان:        

دومہینے  بعد امتحان ہوا۔ نتیجے کا دن تھا۔ تمام بچّے قطار در قطار کھڑے تھے۔ ہیڈ سر نتیجہ دینے کے لیے ڈائس پر آئے۔ سب بچوں کی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ ہیڈسر کو تمام جماعتوں کے اوّل، دوم اور سوم آنے والے بچوں کے نتیجے کا اعلان کرنا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی۔یوں لگتا تھا ، جیسے دھڑکتا ہوا دل جسم کو چیرتے ہوئے باہر نکل آئے گا۔ اب میری کلاس کے رزلٹ کی باری تھی۔ سرنے بلند آواز سے کہا، ”کلاس سیکنڈ اے“

“Firs position goes to Naeem ur Rehman!”

میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں بچوں کا ہجوم چیرتا ہوا ڈائس پر آیا۔ اب ہیڈ سر نے انگریزی میں بولنا شروع کردیا۔ شاید وہ یہ بتا رہے تھے کہ اس بچے نے دو مہینوں میں اتنی محنت کی کہ کلاس میں اول آگیا۔ میں ان کو کیسے بتاتا کہ اس میں میری نہیں، بلکہ ٹیچر کی محنت ہے، جو مجھے سکول میں بھی  انتہائی  محنت سے پڑھاتی تھیں اور اپنے گھر میں بھی بغیر کسی قسم کی بوریت محسوس کیے کئی کئی گھنٹوں تک پڑھاتی رہتی تھیں۔ نہ صرف مجھے، بلکہ دیگر بچّوں پر بھی محنت کرتی تھیں۔ ہیڈ سرنے مجھے رزلٹ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ شیلڈ بھی دی اور سب سے بڑھ کریہ کہ شفقت سے میری پیشانی چوم لی۔ میں اس  شفقت بھرے بوسے کا لمس اب تک محسوس کرتا ہوں ۔

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  جاری ہے۔۔۔۔۔  


میری تمام تحریریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Comments

Popular posts from this blog

رویّہ

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

اتحاد و اتفاق