آرٹس گروپ کی کتابوں کا فقدان

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

پچھلے دنوں میں نویں جماعت کی جنرل سائنس کی کتاب لینے بازار میں گیا، مگر یہ کتاب مجھے نہیں ملی۔ جب میں بازار کی  سب سے بڑی دکان میں گیا  تو ان سے کہا، ”سر، اگر آپ کے پاس یہ کتاب نہیں ہے تو آپ مجھے  لاہور سے منگوا کر دے دیں۔“

انھوں نے کہا، ”ہمارا مال لاہور سے ہی آتا ہے۔یہ کتاب لاہور میں ہی نہیں ہے۔“ مجھے نہیں معلوم کے کتب فرو ش سچ بو ل رہے تھے یا جھوٹ، مگر مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا ضرور لگا۔اتنی اہم کتاب پوری مارکیٹ میں نہیں تھی۔ بچے کہا ں سے پڑھیں؟ کیسے تیاری کریں؟کہاں جائیں ؟حقیقت تو یہ ہے کہ آرٹس گروپ کے طلبہ کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے۔ یہ بے چارے بڑی مشکلوں سے پڑھتے ہیں۔ ان کو تو کتابیں بھی  وقت پر نہیں ملتیں۔ یہ کبھی کتابوں کی پرانی دکانوں کے چکر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی یاروں دوستوں کے پاس کہ شاید ان کے ہاں ایک آدھ کتاب مل جائے۔ اساتذہ  اور دکان دار ان کی حوصلہ شکنی کرنے کو اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ تم نے آرٹس کیوں لی؟ آرٹس کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔  حالاں کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔سائنس کی طرح آرٹس سے بھی کئی شعبے نکلتے ہیں۔  میرے خیال  میں  بچے کو اس کی دل چسپی کے مطابق پڑھنے دیا جائے۔ اس پر اپنی دل چسپی نہ تھوپی جائے۔ کیوں کہ پڑھنا بچے کو ہے، استاد یا دکان دار کو نہیں۔  والدین کو بھی اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔بچے کے ذہنی میلان کے مطابق اسے تعلیم حاصل کرنے دی جائے۔ اگر پڑوسی کی بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے تو ضروری نہیں کہ آپ کی بیٹی بھی ڈاکٹر بنے ۔ ہوسکتا ہے، آپ کی بیٹی کو میڈیکل کی کتابوں کے بجائے عمیرہ احمد کی ”پیرِ کامل“  اور اس نوعیت کی دیگر کتابیں اچھی لگتی ہوں۔

 




یہ بھی پڑھیے:    نویں دسویں  کی ایک کتاب کی کھوج

کچھ دنوں پہلے لکھی گئی تحریر میں میں نے ذکر کیا تھا کہ نویں جماعت کی اردو  اختیاری کی کتاب کہیں بھی دست یاب نہیں ہے۔ یہ کتاب کئی سالوں سے شائع ہی نہیں ہوئی ہے۔ ادب کا شائق طالب ِعلم کیا کرے؟

 

یہ آرٹس گروپ کے طلبہ کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب وہ پڑھائی شروع کرتے ہیں تو ان کو اس وقت سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب انھیں  یا تو کتابیں ملتی نہیں ہیں  یا ملتی ہیں تو بڑی مشکل سے ملتی ہیں۔

 

میں نے دکان دار سے آرٹس گروپ کی کچھ اور کتابوں کے بارے میں  بھی پوچھا۔ مثلاً علم شہریت، معاشیات اور اسلامیات اختیاری وغیرہ  سے متعلق۔ ان کے پاس یہ کتابیں بھی نہیں تھیں۔ کہنے لگے کہ آپ گائیڈ بکس یعنی   رہنما کتابیں لے جائیں ۔ وہاں سے بچوں کی تیار ی کروالیں۔

 

اگرچہ گائیڈ بکس یعنی رہنما کتابیں بھی کار آمد ہوتی ہیں، لیکن اصل کتابوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ رہنما  کتابوں میں بے تحاشا سوالات ہوتے ہیں۔ وہاں سے یاد تو کیا جاسکتا ہے، لیکن سبق کو اچھے طریقے سے سمجھنے کے لیے  اصل کتاب کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے: کیا آرٹس کے مضامین کی اہمیت نہیں ہے ؟


آرٹس  گروپ کے طالب ِ علم کو بتایا جاتا ہے کہ اس میں متنوع اقسام کے مضامین ہوتے ہیں۔ نویں دسویں جماعتوں کی سطح پر تاریخ، اسلامیات اختیاری، اردو اختیاری، عربی ، فارسی، پنجابی، علم ِ شہریت، معاشیات  وغیرہ جیسے مضامین میں سے دو اختیاری مضامین لیے جا سکتے ہیں۔ طالب ِ علم سوچ بچار اور اپنی دل چسپی کو مد نظر رکھ کر دو مضامین  اختیار کر لیتا ہے، لیکن جب وہ کتاب خریدنے جاتا ہے تو اسے انتہائی مایوسی ہوتی ہے۔ کتاب نہیں ملتی ۔ مثلاً کسی بچے نےاپنے  طبعی میلان اور دل چسپی کو ملحوظ ِ خاطر رکھ کر تاریخ ِ اسلام اور اردو اختیاری کے مضامین منتخب کر لیے ۔ پھر جب وہ بازار میں کتاب خریدنے گیا تو اسے وہ کتابیں نہ ملیں۔ بچہ کیا کرے گا؟جواب اس کا یہ ہے کہ  اب اس کے پاس دو راستے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ گروپ ہی تبدیل کر دے۔ یعنی آرٹس گروپ کو چھوڑ کر سائنس گروپ کی پڑھائی کر لے۔ دوسرا یہ کہ آرٹس گروپ کے وہ مضامین لے لے، جس میں اس کی  دل چسپی بالکل نہیں ہے، گووہ کتابیں بھی اسے مشکل سے دست یاب ہوں گی۔  دونوں صورتوں میں اس کی تعلیم  پر   برااثر پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم دل چسپی کو مدّ ِ نظر رکھ کر حا صل کرنی چاہیے۔ دل چسپی ہو گی تو بچہ شوق سے پڑھے گا ۔ نہیں ہوگی تو شوق سے نہیں پڑھے گا، بلکہ مجبوراً پڑھے گا۔

 

اس ضمن میں متعلقہ حکام کو ضرور سوچنا چاہیے۔ تعلیم کی بہتری کے لیے جلد از جلد اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ آخر یہ مسئلہ کیوں در پیش آرہا ہے ؟پھر اس کے بعد اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقداما ت  کیے جائیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ آرٹس گروپ اور سائنس گروپ کے طلبہ کو برابراہمیت دی جائے۔


ٹیگز: آئی ٹی، ادبی، اسلامی، بین الاقوامی،تاریخی،تعلیمی،شخصیات، طنز و مزاح، کتابیں ، معاشرتی، ملی ، میری شاعری، نعیمیات

 

Comments

Popular posts from this blog

رویّہ

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

اتحاد و اتفاق