اشاعتیں

اردو کی بیس عام غلطیاں

تصویر
            اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ اس کی حفاظت اور درست اشاعت ہماری ذمہ داری ہے ۔پاکستان کے حالیہ آئین کی دفعہ 251 اردو کی اہمیت واضح کرتی ہے ۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔ حالیہ آئین 1973ء میں نافذ ہوا تھا ۔ اب 2017ء چل رہا ہے ، مگر اب تک صحیح معنوں میں اردو زبان رائج نہ ہو سکی ۔

انگریز بچوں کو ابتدائی تعلیم کیسے دیتے ہیں؟

تصویر
جب والدین بچوں کو اسکول میں داخل کرتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی سیکھے ۔ اچھا استا د وہ ہوتا ہے ، جو بچے کی تعلیم اور تربیت دونوں پر توجہ دیتا ہے ۔ بچے کی تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے ۔ استاد کا کردار دوسرا درجہ رکھتا ہے ۔ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار بحسن و خوبی سر انجام دینا چاہیے ۔

چند خیالات

تصویر
بچپن میں ہم سے پوچھا جاتا تھا: عقل بڑی ہوتی ہے یا بھینس؟ ہم کہتے تھے: بھینس پوچھنے والے بزرگ ہمیں بتاتے تھے : دکھنے میں بھینس بڑی ہوتی ہے ، سوچنے میں عقل بڑی ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی ، لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے، شعور کو پختگی ملتی گئی ۔ اب سمجھ آیا کہ بزرگ صحیح کہتے تھے ۔ انسانی ذہن بہت وسیع ہوتا ہے ۔ اس میں ہر لمحے طرح طرح کے خیالات ابلتے رہتے ہیں ۔ کچھ خیالات اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ ان پر قوموں کی بنیادیں رکھی جاتی ہیں ۔کچھ خیالات انسان کے کردار کے تعمیر میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ الفاظ اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ ان کو باربار چکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ سیاہ رنگ میں لکھے ہوئے ان الفاظ میں چھپے رنگا رنگ خیالات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔ ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ ان سے روشنی لینی چاہیے ۔

اور اس بار میرا بہاولپور۔۔۔

تصویر
اور اس بار میرا بہاولپور بدقسمت نصیب کی نذر ہو گیا ۔ ڈیرھ سو سے زائد لوگ زندہ جل گئے ۔ سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے ۔ واقعہ چھبیس جون کا ہے ۔ یعنی عید سے ایک دن پہلے کا۔جب پاکستان کے عوام عید کے چاند کا انتظار کر رہے تھے اور خوش تھے کہ کل عید ہوگی ، کیوں کہ سعودی عرب میں عید تھی ۔جب سعودی عرب میں عید ہوتی ہے تو دوسرے دن ہماری عید ہوتی ہے ۔ لیکن اس سانحے کے بعد ہماری خوشیوں پر بڑی حد تک اوس پڑ گئی ۔ ان حرماں نصیبوں نے کس طرح عید منائی ہوگی ، جن کے عزیز واقارب زندہ جل گئے !

کرکٹ کی جیت سے پارا چنار کے دھماکوں تک

تصویر
شاید جب سے یہ دنیا بنی ہے ، کبھی خوشی ،کبھی غم یا کبھی بہار ، کبھی خزاں کا کھیل جاری وساری ہے ۔ ابھی اتوار تک ہم خوشیاں منار ہے تھے کہ ہم نے اپنے سب سے بڑے حریف کو ۔۔۔ اصل میدانوں میں نہیں تو ۔۔۔ کھیل کے میدان میں ضرور رام کر دیا ۔ ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔ ہم نے مٹھائیاں بانٹیں ، سڑکوں کو گلنار کیا ، آسمان کو آتشیں گولوں سے سجایا  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے خوشی کے عالم میں فائرنگ بھی کی ۔ ہمیں خوشی اس بات کی نہیں تھی کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی جیتی اور عالمی رینکنگ میں آٹھویں سے چوتھے نمبر پر آگئی ، بلکہ ہماری پوری قوم اس بات پر خوش تھی کہ ہماری بظاہر "بچوں کی ٹیم " نے انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کو ہرا دیا ۔

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں

قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ حد سے زیادہ مصروفیات نے ایک بار پھر تسلسل توڑ دیا ۔ تسلسل کی بات آئے تو محسن بھوپالی کو ضرور یاد کرنا چاہیے ، جس نے کہا تھا : نہ چھیڑو کھلتی کلیوں ، ہنستے پھولوں کو ان اُڑتی تتلیوں ، آوارہ بھنوروں کو ، تسلسل ٹوٹ جائے گا ! فضا محو سماعت ہے ، حسین ہونٹوں کو نغمہ ریز رہنے دو ، نگاہیں نیچی رکھو اور مجسم گوش بن جاؤ

سیرت ِ طیبہ کے دو واقعات

اس امت ِ مرحومہ کو اس پر آشوب اور سخت دور میں اسوہ ِ حسنہ یعنی پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ پر عمل کرنے کی جتنی اب ضرورت ہے ، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سوچتا ہوں کہ ہماری اخلاقیات کہاں گم ہوگئیں ؟ ہم کبھی زمانے کے امام تھے ، مگر اب کیا ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ جب سے ہم نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سیرت پر عمل کرنا چھوڑ دیا ، تب سے ہم پر مصیبتوں کے دور کا آغاز ہوگیا ۔ میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہم قرآن ِ حکیم کی تعلیمات پر کس طرح عمل کریں گے ، جب کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس پاک کلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح ، جب ہمیں آقا علیہ السلام کی پاک سیرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے تو ہم کیوں کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کر سکیں گے؟ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت ِ طیبہ کی حتی المقدور تشہیر کی جائے ۔ مکتبوں میں ، درس گاہوں میں ، کالجوں میں ، یو نی ورسٹیوں میں ، فیکٹریوں میں ، کارخانوں میں اور یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ۔ کیوں کہ آقا علیہ السلام کی سیرت انسانی زندگی کے ہر ہر گوشے کی رہنمائی اور تربیت کرتی