نویں دسویں کی ایک کتاب کی کھوج

 


تحریر: نعیم الرّحمان شائق

لیکچر کے دوران ایک طالب ِ علم نے مجھ سے سوال کیا، ”سر ، میں نویں جماعت میں سائنس لوں یا آرٹس؟

میں نے سوال پر سوال کیا، ”آپ کی دل چسپی کس میں ہے؟“

بچے نے کہا، ”سر میری دل چسپی تو آرٹس گروپ میں ہے۔ دراصل مجھے رائٹر بننا ہے۔میری اردو بہت اچھی ہے۔ “

میں نے کہا، ”ٹھیک ہے، آپ آرٹس لے لیں۔“

بچّے نے کہا، ”سر، آرٹس کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آج کل ہربچہ سائنس پڑھتا ہے۔“

میں نے کہا، ”تعلیم ذہنی میلان اور دل چسپی کو مدِّ نظر رکھ کر حاصل کرنی چاہیے، نا کہ لوگوں کی دیکھا دیکھی۔ لوگوں کی دیکھا دیکھی کیا جانے والا عمل نقاّلی تو ہوسکتا ہے، تعلیم نہیں۔“

بچّے نے کہا، ”سر آپ مضامین کے بارے میں بھی رہنمائی کر دیں۔ “

میں نے کہا، ”آپ دو  اختیاری مضامین میں سے   ایک ”اردو ادب“منتخب کر لیجیے گا۔ اس مضمون کو عام طور پر ”اردواختیاری“ کہا جاتا ہے۔ آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ آپ کی اردو مزید نکھر جائے گی۔“

بچّے نے کہا، ” کیا آپ مجھے یہ کتاب منگوا کر دے سکتے ہیں ؟ “

میں نے کہا، ” کیوں نہیں ! ان شاء اللہ، کل آپ کو کتاب مل جائے گی۔“



میں تو سمجھ رہا تھاکہ جس طرح باقی کتابیں بہ آسانی مل جاتی ہیں ، یہ بھی مل جائے گی؛مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ میں بازار گیا۔ دکان دار سے”اردو ادب“ کی کتاب مانگی تو وہ مجھے عجیب و غریب اور غصیلی   نظروں سے دیکھنے لگا، جیسے میں نے اسے گالی دے دی ہو۔

کہنے لگا، ”یار، یہ کون سی کتاب ہے؟ میں پہلی بار اس کتاب کا نام سن رہا ہوں۔ میرے پاس تو یہ کتاب نہیں ہے۔ یہاں آپ کو باقی دکانوں سے بھی یہ کتاب نہیں ملے گی، کیوں کہ یہاں سب سے بڑی دکان میری ہے۔ شاید آپ کو اولڈ بک سینٹر سے یہ کتاب مل جائے !“

میں اولڈ بک سینٹر گیا۔ وہاں بھی یہ کتاب نہیں ملی۔ میں نےدکان دار  سے پوچھا، ”بھئی، اگر کوئی بچّہ یہ مضمون لینا چاہے تو کیسے تیاری کرے؟کتاب تو پوری مارکیٹ میں کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ “

دکان دار نے کہا، ”بڑا آسان سا حل ہے۔ گیارھویں جماعت کی اردو اختیاری کی کتاب سے تیار ی کر لے۔“

مجھے حضرت کے مشورے پر بڑے زور کی ہنسی آئی۔ مگر مروتاً ہنس نہیں سکتا تھا۔ پس مسکرا کر چل دیا۔

اس کے بعد میں نے لاہور، ملتان وغیرہ کے بڑے بڑےکتب خانوں اور پبلشرز سے رابطہ کیا۔ بدقسمتی سے یہ کتاب وہاں  بھی نہیں تھی۔ غرض اس سلسلے میں میری ساری تگ و دو اکارت گئی۔ میں بھی ہمّت ہارنے والا نہیں تھا۔ مجھے ایک بات یاد آئی۔ وہ یہ کہ ملتان بورڈ کی ویب سائٹ پر پرانے پرچے پڑے ہوئے ہیں۔ ان پرچوں پر ان اساتذہ کے نام اور نمبرلکھے ہوئے ہیں، جنھوں نے ان پرچوں پر نظر ِ ثانی کی۔ میں نے وہاں سے اردو ادب  کے پرچے  دیکھے۔ وہاں سے دو چار اساتذہ کے نمبر نکالے اور ان سے رابطہ کیا۔ ان میں سے دو استادوں نے بتایا کہ یہ کتاب آپ کو کہیں سے بھی نہیں مل سکتی۔ البتہ ملتان بورڈ میں کوئی لائبریری ہے، وہاں اس کتاب کی فقط فوٹو کاپی موجود ہے۔ اگر آپ چاہیں تو وہاں چلے جائیں اور اس کتاب کو دیکھ لیں۔ ہوسکتا ہے، آپ کو فوٹو کاپی کی اجازت بھی مل جائے۔

 ایک استاد نے یہ شفقت بھی کی کہ  ملتان بورڈ میں  سےکسی جاننےوالے کا نام بتا دیا۔ کہا کہ ان سے ملیں ۔ انھیں میرا حوالہ دیں۔وہ آپ کو کتاب دکھا دیں گے۔

میں  بڑا حیران ہوا۔ ایک ایسا مضمون جس کا امتحان بھی ہوتا ہے اور جو میٹرک کے نصاب کا حصّہ ہے،  اس کی کتاب ہی دست یاب نہیں ہے۔

اب میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ پنجاب  کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ میں رابطہ کروں۔ سو میں نے رابطہ کیا۔ جب میں نےصاحب  سے کہا کہ مجھے نویں جماعت کی اردو ادب کی کتاب چاہیےتو وہ بھی ایک لمحے کے لیے حیران ہوگئے۔ پہلے تو انھوں نے کہا کہ یہ مضمون تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ پھر میں نے انھیں بتایا کہ بورڈ میں اس مضمون کا پرچہ بھی ہوتا ہے اور یہ نویں ، دسویں آرٹس گرو پ کا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے ، کسی پرائیویٹ پبلشر نے یہ کتاب شائع کی ہو۔ پنجاب بورڈ میں تو یہ کتاب نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ اس کتاب کا اصل نام معلوم کریں۔ نایاب کتابوں کی کھوج میرا پسندید ہ مشغلہ ہے۔ میں نے ہمّت نہیں ہاری۔ میں نے لاہور بورڈ کی ویب سائٹ سے نویں دسویں کی سکیم آف سٹڈیز ڈاؤن لوڈ کی۔ اس میں مجھے اس کتاب کا اصل نام  اور پورا نصاب مل گیا۔ کتاب کا نام ”بستان ِ ادب“ تھا۔  اب میں نے ”بستان ِ ادب“  کو گوگل میں سرچ کیا۔” کفر ٹوٹا  خدا خدا کرکے “کی مصداق مجھے یہ کتاب آخرکار چغتائی پبلک لائبریری کی  ویب سائٹ پر مل گئی۔ یہ کتاب پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ ہی تھی۔ میں نے دوبارہ  پنجاب بورڈ میں رابطہ کیا۔صاحب  کو  کتاب کا نام بتادیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ کتاب چغتائی پبلک لائبریری کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ انھوں نے پوچھا ، ”کیا یہ کتاب پی ڈی ایف میں ہے؟“

میں نے کہا، ”نہیں ، سر!“

انھوں نے مجھے اپنا وٹس ایپ نمبر دے کر کہا،”آپ مجھے اس کتاب کے چند صفحات  کا سکرین شوٹ لے کر وٹس ایپ کریں۔ “

میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ کچھ دیر بعد انھوں نے بتایا ، ”مجھے پنجاب بورڈ کی پرانی کتابوں میں یہ کتاب مل گئی ہے۔ یہ  کتاب آخری بار 2005ء میں شائع ہوئی تھی۔ آپ کو کتنی عدد یہ کتابیں چاہئیں؟آپ یہ بھی بتادیں کہ اس کتاب کو آگے پہنچانے کے لیے کیا کیا جائے؟  کیوں کہ اس کتاب کی مانگ نہیں ہے۔ “

میں نے کہا، ”سر، مجھے تو ایک ہی کتاب چاہیے۔ چوں کہ اس کتاب کی مانگ کم ہے، آپ  باقی کتابوں کی طرح اس کتاب کی  بھی پی ڈی ایف بنا کر پنجاب بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیں، تاکہ جو طلبہ نویں دسویں میں اردو اختیاری کا مضمون منتخب کریں، ان کے لیے آسانی ہوجائے۔ چوں کہ اس کتاب کی مانگ نہیں ہے، اگر آپ اس کتاب کوشائع کرواتے ہیں تو ہوسکتا ہے، آپ کو نقصان ہو۔ جب کتاب کی پی ڈی ایف  اپلوڈ ہو جائے گی، تو بچے اس پی ڈی ایف کا پرنٹ نکلوا کر ہارڈ کاپی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ “

پھر میں نے ایک آڈیو میں آرٹس گروپ کی افادیت واہمیت گنواتے ہیں ان اساتذہ اور اداروں پر تنقید کی جو بچّوں کا ذہنی میلان دیکھتے ہوئے بھی خواہ مخواہ سائنس گروپ کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔

اس کے بعد صاحب کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے پنجاب بورڈ کی ویب سائٹ چیک کی تو وہاں بھی ابھی تک یہ کتاب اپلوڈ نہیں ہوئی۔ متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا کچھ کریں۔ تاکہ جو بچے یہ مضمون لینا چاہتے ہیں، ان کے لیے آسانی ہو سکے۔


میری تمام تحریریں اور شاعری پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

ٹیگز: آئی ٹی، ادبی، اسلامی، بین الاقوامی،تاریخی،تعلیمی،شخصیات، طنز و مزاح، کتابیں ، معاشرتی، ملی ، میری شاعری، نعیمیات

Comments

Anonymous said…
بہترین تحریر

Popular posts from this blog

رویّہ

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

اتحاد و اتفاق