تحریر: نعیم
الرحمان شائق
میرے پیارے دوست شائف راشد حسین لکھتے
ہیں:
"بابا اشفاق احمد اور آپا بانو
قدسیہ جب ایک دوسرے کی زوجیت میں بندھ گئے تب سے لیکر بابا کے انتقال یعنی جب تک
دونوں حیات رہے ایک دوسرے کے سچے رفیق اور ساتھی رہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک
دوسرے کی ضرورت تھے۔
ایک قدامت پسند بلکہ قدامت پرست بابا
نے اپنی زوجہ کو پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس سے چاہے ملے، جیسا چاہے پہنے اور
جو سمجھ آئے لکھے۔ ہمیشہ بانو قدسیہ صاحبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
ایک پڑھی لکھی، زمانے کے ساتھ قدم
بقدم چلنے کاعزم رکھنے والی بانو قدسیہ بھی اشفاق احمد کی اسیر رہیں مگر وہ جانتی
تھیں کہ
اس دیو قامت شخصیت والے بابا کو کیسے اپنا داس بنائے رکھنا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ ایک دفعہ کا ذکر
کرتے ہیں کہ ایک ادبی محفل کے اختتام پر جب لوگ اٹھ کر جانے لگے، میں اور بانو آپا
باتیں کرتے آگے آگے چلتے ہوئے صدر دروازے تک پہنچ گئے۔ دہلیز پر پہنچ کر آپا رک
گئی اور مڑ کر اشفاق صاحب کو دیکھنے لگی۔ میں نے بانو آپا سے کہا "آپا چلیں۔"
وہ بولیں کہ
"خان صاحب مصروف ہیں۔ وہ پہلے نکلیں گے، پھر میں۔"
یہ سن کر میں نے کہا:
"آپا
پلیز!!"
وہ دھیرے سے مسکرائیں اور شفقت سے
بولیں۔
"مستنصر
کبھی کوئی ڈبہ، انجن سے آگے نکلا ہے؟ پہلے وہ انجن جائے گا پھر یہ گاڑی اس کے
پیچھے چلے گی۔"
2017ء
کو بانو قدسیہ اشفاق بابا سے ہجر کے 12 سالوں بعد مٹی تلے ملنے پہنچی تو اپنا مرقد
اپنے داس کے پیروں میں بنوایا۔ قبر کی یہ جگہ اُن اسیرہ کی باقاعدہ وصیت تھی، آخری
خواہش تھی جس کو انہوں نے اپنی سچی محبت کے اظہار پر خرچ کردیا حالانکہ اسیر کی
دیکھنے والی آنکھیں بہت پہلے بند ہوچکی تھیں۔"