پہلے تربیت، پھر تعلیم

 

تحریر: نعیم الرّحمان شائق

سورۃ آل ِ عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: "بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انھیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہےاور انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھا تا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔" (3:164)

 


درج بالا آیت ِ مبارکہ سے ملتی جلتی ایک آیت سورۃ البقرۃ میں کچھ اس طرح ہے: "ہم نے تم میں تمھیں میں سے رسول بھیجا، جو ہماری آیتیں تمھارے سامنے تلاوت کرتا  اور تمھیں پاک کرتا ہے اور تمھیں کتاب و حکمت اور وہ چیزیں سکھاتا ہے، جن سے تم بے علم تھے۔"(2:151)

 

درج بالا آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اسلام تعلیم پر تربیت کو فوقیت دیتا ہے۔ یعنی پہلے تربیت، پھر تعلیم۔ پہلے تزکیہ ، پھر کتاب و حکمت۔ رسول ِ اکرم ﷺ کوحکم دیا گیا کہ پہلے آپ کلام ِ الٰہی کے ذریعے  ان کی تربیت کر لیں۔ جب آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تربیت کے مرحلے سے گزر جائیں، پھر انھیں کتاب و حکمت سکھائیں ۔ یعنی تعلیم دیں۔

 

قرآن ِ حکیم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ پر جو سورتیں ، مکہ مکرّمہ میں نازل ہوئیں، ان میں زیادہ تر تربیت کی بات کی گئی ہے۔ جب کہ جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہیں، ان میں زیادہ تر تعلیم کی بات کی گئی ہے۔ گویا مکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تربیت ہوئی اور مدینہ میں تعلیم ہوئی۔ مکہ گوشہِ تربیت ہے اور مدینہ جائے تعلیم۔

 

سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء، سورۃ التوبہ ، سورۃ الاحزاب۔۔۔۔۔۔ مدنی سورتیں ہیں۔ ان سورتوں میں روزے، طلاق، حج، میراث، جہاد، پردے کے اور دیگر  احکامات کا ذکر ہوا ہے۔ مسائل کا علم تعلیم کے ذمرے میں آتا ہے۔ ان سورتوں میں اور دیگر مدنی سورتوں میں اسلام کے قوانین وضع کیے گئے ہیں۔ مدنی سورتوں کی آیات عموماً بڑی ہیں، کیوں کہ کسی بھی بات کی وضاحت کے لیے زیادہ الفاظ درکار ہوتے ہیں۔

 

سورۃ الشعراء، سورۃ عبس، سورۃ الاعلیٰ، سورۃ النمل ۔۔۔ یہ مکی سورتیں ہیں۔ ان سورتوں میں زیادہ تر نصیحتیں اور قصے ہیں۔ نصیحتوں اور سابقہ اقوام کے قصوں کے ذریعے قرآن ِ حکیم کو ماننے والوں کی تربیت کا سامان کیا گیا ہے۔ بے شک یہ ابتدائی تربیت کا ہی اثر تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم باوجود مصیبتوں اور تکلیفوں کے، اسلام سے نہ پھرے۔ دین ِ اسلام کی راہ میں آنے والیٰ ہر تکلیف اور مصیبت کا سامنا کیا۔

 

ہمارے تعلیمی ادارے تربیت سے نہیں تعلیم سے آغاز کرتے ہیں۔ بلکہ تربیت دی ہی نہیں جاتی۔ ان کی توجہ صرف تعلیم پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو انھیں بہت سی بری عادتوں کی لت لگ جاتی ہیں۔ اگر ابتدا تعلیم سے نہیں، تربیت سے کی جا ئے تو اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور وہ بہت سی برائیوں سے بچ جائیں گے۔

 

ہمارے ہاں جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ کرپشن ، لوٹ مار، بددیانتی، قتل و غارت گری اور اس جیسے دیگر جرائم اور برائیاں عروج پر ہیں۔ وجہ تعلیم کی کمی نہیں ، تربیت کا فقدان ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔ اگر انھیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی تو ایسا ہر گز نہ ہوتا۔

 

ہمیں اپنا تعلیم نظام بدلنا ہوگا۔ ہمیں تربیت پر بھر پور توجہ دینی ہوگی۔ ابتدا ہی سے بچوں کی تربیت پر کام کرنا ہو گا۔ پہلے تربیت، پھر تعلیم پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر ہم تربیت پر خاص توجہ مرکوز کریں گے تو ان شاء اللہ  معاشرے پر اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر جرائم کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوگا تو یہ کم ضرور ہو جائیں گے۔

 

رسول ِ اکرم ﷺ نے  قرآن مجید کی تعلیمات اور اپنے اعلا اخلاق سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی تربیت کی۔ ہمیں بھی قرآن حکیم کی تعلیمات اور اُسوہ ِ حسنہ کے ذریعے نونہالوں کی تربیت کرنی ہو گی۔ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ قرآن مجید مع ترجمہ و تفسیر اور سیرت النبی ﷺ کو ہر کلاس کے نصاب میں شامل کریں اور تربیت کا ایک پیریڈ مختص کریں۔ یہ تربیت محض نظری نہ ہو، بلکہ عملی بھی ہو۔

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

بچوں کو پڑھانے کےچار بنیادی طریقے

فیس بک پیج کے لائکس بڑھانے کے چھے آسان طریقے