سر زبیر بلوچ

 


تحریر: نعیم الرّحمان شائق

کراچی کے جن احباب کو اب بھی میں شدّت سے یاد کرتا ہوں ، ان میں سے ایک سر زبیر بلوچ ہیں۔ کراچی وہ شہر ہے، جہاں میری زندگی کے کم و بیش انتیس سال گزرے ۔ جہاں کسی انسان کی زندگی کے انتیس سال گزرے ہوں ،وہاں کی یادوں اور وہاں کے  مخلص احباب کو کیوں کر فراموش کیا جا سکتا ہے؟کراچی میرا وہ ماضی ہے، جسے میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شہر نے مجھ سے بے وفائی برتی۔ بدلے میں میں نے بھی اس سے وفا نہیں کی۔

 

سر زبیر میرے ان احباب میں سے ہیں جو اب بھی مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ حال احوال پوچھتے ہیں۔ علیک سلیک کرتے ہیں۔ مجھے اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے،جب کراچی سے کوئی  جاننے والا مجھ سے رابطہ کرتا ہے۔سندھی کے پیپر وہ اب بھی مجھ سے کمپوز کرواتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھی کمپوزنگ میں نے ہیڈوے سکول (سرزبیرکے سکول کا نام) سے ہی سیکھی تھی۔ جن دنوں میں ہیڈ وے گرامر سکول میں کمپیوٹر آپریٹر تھا، سر نے مجھے سندھی کی ایک کتاب کا مسودہ تھما دیا۔کہا، اسے کمپوز کرو۔ مجھے سندھی کمپوزنگ کا 'ککھ' نہیں آتا تھا۔ سر میری ہمت بندھاتے تھے۔ کہتے تھے، سیکھ لو ، آگے کام آئے گی۔ کچھ ان کی ہمت اور حوصلے کا اثر تھا تو کچھ میری محنت کا ثمرہ۔۔۔  اُدھر کتاب کمپوز ہوگئی، اِدھر میں سندھی کمپوزنگ سیکھ گیا۔


ان کا معمول رہا ہے کہ جب وہ سندھی کے پرچے کمپوز کروالیتے ہیں تو پوچھتے ہیں، ”نعیم صاحب!کتنے پیسے ہوگئے ہیں؟ نمبر بھی بھیج دو، جس پر پیسے بھیجنے ہیں۔“  میں کہتاہوں، ”سر!آپ جتنے بھیجیں گے، لے لوں گا۔  اگر آپ نہیں بھیجیں گے تو بھی کوئی بات نہیں۔ “ پھر کچھ دیر کے بعد وہ پیسے بھیج دیتے ہیں ۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ انھوں نے کبھی کم پیسے بھیجے ہوں گے۔ ہمیشہ زیادہ بھیج دیتے ہیں ۔ مثلاً اگر ہزار روپے بنتے ہیں  تو  پندرہ سو یا دوہزار بھیج دیتے ہیں۔ پھر میں کہتا ہوں ،”سر ، یہ تو آپ نے زیادہ پیسے بھیج دیے ہیں۔ چلیں اگلے پرچوں کے پیسے بھی آگئے ۔ آپ اگلے پرچوں کے پیسے نہ بھیجیےگا۔“ جب اگلے پرچے آتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ میں پہلے پیسے بھیج چکا ہوں۔ پھر ڈبل پیسے بھیج دیتے ہیں۔ نہ جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر ایسا کرتے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں:نعیمیات


حقیقت یہ ہے کہ دوستی یاری میں وہ پیسہ نہیں دیکھتے ۔ وہ پیسوں پر دوستوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب خاصاوسیع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی بار جب میں ان کے سکول میں نوکری کے لیے  گیا تو انھوں  میرے تجربے کی بنا پر فوراً مجھے رکھ لیا۔سکول جوائن کرنے سے پہلے  میں نے  میسج کیا کہ میں اتنی تنخواہ لوں گا۔ انھوں نے جواب دیا کہ سر ، آپ جو تنخواہ بتا رہے ہیں، میں آپ کو اس سے زیادہ دوں گا۔ میں حیران ہو گیا۔ عام طو ر پر پرنسپل حضرت یا تو وہی تنخوا ہ دے دیتے ہیں، جو ان سے مانگی جاتی ہے یا کم کروالیتے ہیں۔ سر زبیر نے زیادہ بتادی ۔

 

یہ بھی پڑھیں:ہمارے ہیڈ سر


کراچی  میں میں سر زبیر کے سکو ل میں پڑھاتا تھا۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر آپریٹر بھی تھا۔ ان کے سکول میں میں نے کم و بیش سات  سال کام کیا۔ اس دوران میں نے سرزبیر کی ذاتی خوبیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ مجھے وہ بھلے انسان لگے۔ان کی ذات میں کچھ خوبیاں ایسی تھیں، جو میں نے دیگر پرنسپل حضرات  اور سکول منتظمین میں نہیں دیکھیں۔ 

 

دوسرے پرنسپل حضرات کے برعکس ان میں عاجزی و انکساری تھی۔ عام طور پر سکول مالکان اور پرنسپل حضرات اساتذہ اور اپنے مابین فرق رکھتے ہیں۔ اساتذہ سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں ہیں۔ سر زبیر اساتذہ کو اپنا دوست سمجھتے تھے۔ خوب باتیں کرتےتھے۔

 

گو میں دن کو وہاں پڑھاتا تھا، مگر کبھی کبھار رات کو ان کی محفل میں شرکت کرتا تھا۔ وہاں اور دوست بھی ہوتے تھے۔ سر زبیر کی محفل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بوریت بالکل محسوس نہیں ہوتی تھی۔ہم  کئی گھنٹوں تک  ان کی محفل میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان کی ہر ہر بات ہمیں تازہ دم کر دیتی۔

 

سر زبیر کافی حد تک مہمان نواز تھے۔ چائے اور کبھی کبھار بسکٹ ان کی محفل  کے لازم اجزا ہوتے تھے۔ کوئی بھی ملنے آتا تو فوراً چائے منگواتے۔چوں کہ ان کا حلقہ احباب خاصا وسیع تھا، اس لیے ان کو دن میں کئی بار چائے منگوانی پڑتی تھی۔ کبھی کبھار ہم   کہتے کہ سر، ہم صرف ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ چائے نہ منگوائیں۔ کہتے، دراصل مجھے بھی چائے پینی ہے، اس لیے منگوا رہا ہوں۔  کبھی ایسا بھی ہوتا کہ چائے پیالیوں میں ہوتی ان کے سامنے بھی چائے کی پیالی ہوتی۔ اچانک کوئی مہمان آجاتا۔ سر اپنی چائے کی پیالی اسے دے دیتے۔

 

یہ بھی پڑھیں: تعلیم میں حوصلہ افزائی کی ضرورت


ایک بات پر مجھ سےنالاں رہتے ۔ وہ یہ کہ میں سکول کے پروگراموں میں شرکت نہیں کرتا تھا۔  انھوں نے ملیر میں سکول بنوایا۔ تقریباً اپنے سارے اساتذہ کو وہاں لے گئے۔ مجھے بھی کہا، مگر میں نے معذرت کر لی۔ ایک دو بار پھر کہا۔ میں نے ہر بار معذرت کی۔ سکول کے پکنک کے پروگرام ہوتے تو میں دیگر سکولوں کی مصروفیات کی وجہ سے نہ جاتا۔پھر ناراض ہوتے۔ ایک دن کہا، ”نعیم ! لگتا ہے، تم ہمارے جنازوں میں بھی شرکت نہیں کرو گے۔“اس وقت تو  میں مسکرا دیا۔ پر اب تو واقعی ایسا ہی لگتا ہے کہ سرنے ٹھیک کہا تھا۔  کیوں کہ کراچی اور میرے گاؤں کے درمیان تقریباً سات سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔      

؏           یاد ِ ماضی عذاب ہے یا رب!

 

سر زبیر معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ سکول میں ہر چیز اچھی سے اچھی ہو۔ اچھا بورڈہو، اچھی کتابیں ہوں، اچھے اساتذہ ہوں۔ پیسہ چاہے جتنا لگ جائے، مگر معیار بر قرار رہے۔  اگر وہ سکول سے کماتے تھے تو اس پر خرچ بھی کرتے تھے۔ سکول کی ہر ہر شے سے  ان کا حسن ِ ذوق جھلکتا تھا۔

 

اردو بازار سے سکول  کے بچوں کے لیے کورس خریدنے جاتے تو اساتذہ کے لیے گائیڈ بکس اور پین بھی لے آتے تھے۔ عام طور پر  سکولوں میں اساتذہ کو اپنے لیے خود کتابیں خریدنی پڑتی ہیں۔ ہیڈوے میں ہمیں گائیڈ بک بھی مل جاتی اور پین  بھی مل جاتے تھے۔

 

جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں نے ان کےسکول  میں  کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر بھی کام کیا ۔میرے ذمے پیپر کمپوز کرنا، ان کی تصحیح کرنا اور نصاب  وغیرہ بنانا تھا۔ میں نے دیگر تعلیمی اداروں کے بھی پیپر کمپوز کیے۔ ہیڈوے اور دیگر سکولوں کے پرچوں میں خاصا فرق ہوتا تھا۔ دیگر تعلیمی اداروں کے پرچے روایتی انداز میں ہوتے تھے، جب کہ سر زبیر کے سکول کے پرچوں کی بات ہی کچھ اور ہوتی تھی۔یہ نہایت سجے ہوئے ہوتے تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دیگر اداروں کے منتظمین  محض پرچے کمپوز کرواتے تھے۔ سر زبیر پرچے کمپوز بھی کرواتے تھے اور ڈیزائن بھی کرواتے تھے۔ دیگر سکول والوں کے پیپر زیادہ تر ایک ہی صفحے میں ہوتے تھے۔ سرزبیرکے سکول کا پیپر تین سے چا رصفحوں میں آتا تھا۔ سکول کی دیگر چیزوں کی طرح اس سلسلے میں بھی ان کا حسن ِ ذوق قابل ِ داد تھا۔

ان دنوں وہ کافی سرگرم ہیں۔ ان کی تنظیم ”فیس کراچی“تعلیم کی بہتری کے لیے عملی اقدام کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں انھوں نے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک پروگرام کا انعقاد بھی کیا تھا۔اس سے کچھ پہلے سکولوں کے مابین جنرل نالج کے مقابلہ بھی کروایا تھا۔ چوں  کہ میں کراچی میں نہیں ہوں، اس لیے اس بارے میں مجھے زیادہ معلوم نہیں ہے۔   

           

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سر زبیر کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے۔


ٹیگز: آئی ٹی، ادبی، اسلامی، بین الاقوامی،تاریخی،تعلیمی،شخصیات، طنز و مزاح، کتابیں ، معاشرتی، ملی ، میری شاعری، نعیمیات

Comments

Popular posts from this blog

رویّہ

یہ اشعار علاّمہ اقبال کے نہیں ہیں

اتحاد و اتفاق