اشاعتیں

تعلیمی لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

قرآنی نصیحتیں

تصویر
  قسط نمبر 1 تحریر و ترتیب: نعیم الرّحمان شائق   قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا آخری صحیفہ ِ ہدایت ہے جو آخری نبی حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم   پر نازل ہوا۔ دین ِ اسلام کو سمجھنے کا سب سے پہلا ذریعہ قرآن مجید ہے۔ یہ کتاب انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں الہامی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ خالق مخلوق سے کیا چاہتا ہے اور خالق کی رضا کے حصول کے لیے مخلوق کو کیا کرنا چاہیے۔  

اردو املا کی عام غلطیاں

تصویر
  تحریر: نعیم الرّحمان شائق کہنے کو تو اردو ہماری قومی زبان ہے، مگر اس بے چاری کے ساتھ ہمارا سلوک افسوس ناک ہے۔ہمارا میڈیا، ہمارے تعلیمی ادارے، ہمارے عوام۔۔۔ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں۔ جو جس طرف چاہتا ہے، اس   کو موڑ دیتا ہے۔نہ اصول ہیں، نہ قاعدے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ یہ زبان درست طریقے سے پھلے، پھولے اور پروان چڑھے۔ انگریز چلے گئے، مگر جاتے جاتے ہمیں ذہنی غلام بنا گئے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں میں جتنی توجہ انگریزی پر دی جاتی ہے، اردو پر نہیں دی جاتی۔بچہ انگریزی میں چھوٹی سی غلطی بھی کردے تو اس کو فی الفور سمجھایا جاتا ہے کہ ایسے نہیں ایسے کرو، لیکن اگر اردو میں استاذ صاحب   خود غلطیوں کے پہاڑ بھی کھڑے کردیں تو کوئی بات نہیں۔  

اردو کی پانچ مفید علمی ویب سائٹیں

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق میں اپنی تحریرو ں کے ذریعے وقتاً فوقتاً فروغِ اردو کا بگل بجاتا رہتا ہوں، اس لیے مجھے اردو کے سلسلے میں ہونے والی ہر قسم کی خدمات قابل ِ تحسین محسوس ہوتی ہیں۔ اُردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس کی ترویج و اشاعت ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جتنی توجہ انگریزی اور سائنسی مضامین پر دی جاتی ہے، اردو پر نہیں دی جاتی۔ پھر ہم ہی شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو غالبؔ   و اقبالؔ سمجھ نہیں آتے۔  

تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے طلبہ اور اساتذہ کو ہونے والے نقصانات

تصویر
  تحریر: نعیم الرحمان شائق جب سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا ہے، تیسری بار ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگ رہا ہے۔ یہ فیصلہ پڑوسی ملک بھارت میں کووڈ انیس کی وجہ سے ہونے والی حالیہ تباہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ وزیر ِ اعظم نے کہا ہے کہ اگر   ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو سخت فیصلہ کرنا پڑے گا۔انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا   ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بھارت جیسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔ دو روز قبل وزیر ِ اعلا سندھ   مراد علی شاہ نے نیوز کانفرنس کی جس میں انھوں نے دیگر فیصلوں کے ساتھ ساتھ   یہ بھی کہا کہ تمام تعلیمی ادارے تا حکم ِ ثانی بند رہیں گے۔    

تعلیم ذہنی میلان کے مطابق حاصل کرنی چاہیے

تصویر
  نعیم الرحمان شائق دسویں جماعت کی ایک طالبہ ریاضی میں بہت اچھی تھی۔ ہمیشہ سب سے زیادہ نمبر لیتی تھی۔ استاد مشکل سے مشکل سوال بھی سمجھاتے تو فوراً سمجھ لیتی تھی۔ اس کا شوق تھا کہ وہ گیارھویں جماعت میں پری انجینیرنگ لے۔بعد میں ریاضی میں ماسٹرز کرکے پڑھائے۔ مگر اسے بتایا گیاکہ اس کو ریاضی نہیں پڑھنی چاہیے، کیوں کہ لڑکیوں کو میڈیکل کی طرف جانا چاہیے۔ وہاں ان کے لیے نوکریوں کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ جماعت کی باقی لڑکیوں کی دیکھا دیکھی اس نے بھی میٹرک کے بعد پری میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ چوں کہ ذہنی میلان ریاضی کی طرف تھا۔ اس لیے میڈیکل کی تعلیم دل لگا کر حاصل نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گیارھویں جماعت میں   حیاتیات میں فیل ہوگئی۔ اب جس کو جس مضمون میں دل چسپی نہ ہوتو وہ فیل ہوگا ہی۔ بارھویں جماعت میں پھر حیاتیا ت کا پرچہ رہ گیا۔ مایوس ہو کرطالبہ   نے تعلیم کو خیر با د   کہہ دیا۔

اطہر ہاشمی کے کالم کتابی صورت میں شایع کیے جائیں

تصویر
  نعیم   الرحمان شائق بہت سال پہلے میں نے اخبار کےایک ٹھیلے سے مشہور ہفت روزہ رسالہ"فرائیڈے اسپیشل" خریدا۔رسالہ پڑھتے ہوئے جب میں آخری صفحے پر پہنچاتو اطہر ہاشمی کا کالم بعنوان "خبر لیجے زباں بگڑی" ملا۔ میں پہلی بار ان کا کالم پڑھ رہا تھا۔ یہ کالم   معاصر اخبارات اور نیوز چینلوں میں ہونے والی اردو کی غلطیوں کی تصحیح پر مشتمل تھا۔ میں حیران رہ گیا کہ پاکستان میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے، جو اردو زبان پر اتنی مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ کالم خشک قسم کی معلومات پر مشتمل تھا، مگر اتنا خوب صورتی سے تحریر کیا گیا تھا کہ میں پڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ پورا مضمون ختم ہوگیا۔پھر میں نے یہ عادت بنالی تھی کہ محض اطہر ہاشمی کا کالم پڑھنے کےلیے ہر ہفتے "فرائیڈے اسپیشل" خریدتا۔

اردو کی اہم کتابیں مفت میں ڈاؤن لوڈ کریں

تصویر
  یادش بخیر۔۔یہ کم و بیش سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے۔ میں نے blogger.com پر asquirepdfs.bogspot.com کے نام سے ایک بلاگ بنایا تھا۔ اس بلاگ پر میں اردو کی مشہور کتابیں پی ڈی ایف  کی صورت میں پوسٹ کرتا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے میں mediafire.com پر کتاب اپ لوڈ کر دیتا تھا۔ پھر اس کا لنک بلاگ پوسٹ کے ساتھ acquirepdfs.blogspot.com پر رکھ دیتا تھا۔

بی اے اور ایم اے کے طلبہ کا مسئلہ

تصویر
2017ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام جامعات کے وائس چانسلرز کوہدایت کی کہ وہ  2018ء سےدو سالہ بی اے، بی ایس سی اور 2020ء سے دو سالہ ایم اے ، ایم ایس سی کے پروگرامز میں طلبہ کو داخلےنہ  دیں۔اس ضمن میں جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اب دوسالہ بی اے، بی ایس سی کی  جگہ چار سالہ بی ایس پروگرام لے لے گا۔ یعنی انٹر کے بعد طلبہ کو کسی بھی مضمون میں  چار سالہ بی ایس کی ڈگری حاصل کرنی پڑے گی۔ اگر طلبہ انٹر کے بعد محض دو سالوں کے لیے تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں بی اے، بی ایس سی کی بجائے  ایچ ای سی کی نئی متعارف کردہ"ایسوسیٹ ڈگری" دی جائے گی۔ 28 اپریل 2020ء کو ایچ ای سی نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں بتایا گیا کہ جن طلبہ نے بی اے، بی ایس سی کی ڈگریا ں حاصل کر لی ہیں، وہ بی ایس کے لیے اہل ہیں۔ ان کو پانچویں سمسٹر میں داخلہ دیا جائے گا۔ یعنی ان کو دو سال مزید پڑھنا پڑے گا۔

کیا آرٹس کے مضامین کی اہمیت نہیں ہے؟

ہمارے تعلیمی حلقوں میں خاص طور پر اور پورے معاشرے میں عام طور پر یہ سوچ نہایت شدت کے ساتھ سرایت کرتی جارہی ہے کہ فنون یعنی آرٹس   کی کوئی اہمیت نہیں ہے، صرف سائنس کی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اسکولوں، کالجوں، اور اکیڈمیوں نے آرٹس کے داخلے بند کر رکھے ہیں۔ ان کے ہاں صرف سائنس اور کامرس پڑھائی جا رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب ان کے پاس آرٹس کے مضامین کا کوئی طالبِ علم داخلے کے لیے آتا ہےتو ان کو نہ صرف داخلہ نہیں دیتے۔۔۔ کہ   داخلے انھوں نے پہلے سے بند کر رکھے ہوتے ہیں۔۔۔۔ بلکہ دو چار نصیحتیں بھی جھاڑ دیتے ہیں کہ تم نے آرٹس کیوں لی۔آرٹس کی کوئی اہمیت نہیں۔آرٹس پڑھنے والوں کو کوئی نوکری نہیں ملتی۔آرٹس تو وہ بچے پڑھتے ہیں، جو نکمے   اور پڑھائی میں کم زور ہوتے ہیں۔ تم نے تو اپنی زندگی برباد کر دی وغیرہ وغیرہ۔

سندھ میں تعلیم کس طرف جارہی ہے؟

تصویر
محکمہ ِ تعلیم سندھ نے اچانک جماعت نہم کی حیاتیات، کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں تبدیل کر دی ہیں۔ واضح رہےکہ تعلیمی ادارے لگ بھگ چھےمہینوں کے لیےبندتھے۔چھے مہینوں کےبعد جیسےہی اسکول کھلے تو معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا کتابیں تبدیل کر دی گئی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس بارے میں کسی قسم کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ اور سندھ کےتمام بورڈز نےبھی اس بارے میں کسی قسم کی کوئی اطلاع دینےکی زحمت نہیں کی۔حالاں کہ سوشل   میڈیا کی وجہ سے خبر رسانی اور آسان ہوگئی ہے۔ کراچی میٹرک بورڈ کی ویب سائٹ اس ضمن میں تاحال خاموش ہے۔ہمیں بھی اس بارےمیں اس وقت معلوم ہوا، جب گورنمنٹ اسکولوں کے طالب علموں کوانگریزی کی نئی کتابیں فراہم کی گئیں   اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر حیاتیات اورانگریزی کی نئی کتابیں اپلوڈ کی گئیں۔ بہتر ہوتا کہ نئے سال سے یعنی 2021ء سے ان کتابوں کا اجرا کیا جاتا۔ ابھی پرانی ترتیب چلنےدی جاتی۔پہلے سے وقت کی شدید قلت ہے۔ بچے تیاری کیسےکریں گے۔اس فیصلےنے اساتذہ اور طلبہ  دونوں کو پریشان کر دیا ہے کہ اب ان مضامین کی تیاری اتنے کم عرصے میں کیسے ہو پائے گی۔

انٹرنیٹ پر اردو کو فروغ دینے کے چار طریقے

تصویر
انٹر نیٹ کی حیرت ناک نگری کو بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پررکھا ہوا زیادہ تر مواد انگریزی میں ہے۔ اردومیں پڑا ہوامواد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ محبانِ اردو کے لیے یہ امر تشویش ناک ہے۔ کیوں کہ انھیں معلوم ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہمارا سو فی صد انحصار انٹرنیٹ پر ہوگا۔ اگر زبانِ اردو سے آج اغماض برتا گیا اور اس حیرت کدے کو حتی المقدور اردو مواد فراہم نہ کیا گیا تو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم انٹرنیٹ پر اردو کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ میری دانست میں درج ذیل چار کام کر کے اردو کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا سکتا ہے۔

ریاضی کی اٹھارہ پہیلیاں۔۔جوابات کے ساتھ

تصویر
تاریخ کے ایک قابل سائنس دان گلیلیو نے ایک بار کہا تھا: ریاضی وہ زبان ہے ، جس میں خدا نے اس کائنات کو لکھا ہے۔ "بے شک ریاضی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہو تی ہے۔ سر فرانسس بیکن لکھتے ہیں کہ ریاضی ، آدمی کو چالاک بنا دیتی ہے۔ ریاضی کو سمجھنے کے لیے دلچسپی ضروری ہے ۔ انٹرنیٹ نگری ریاضی کے بارے میں دانا لوگوں کے اقوال سے بھری ہوئی ہے ۔ لیکن یہ میرا عنوان نہیں ہے۔ اس لیے میں ان معنی خیز باتوں کو لکھ کر آپ کا وقت 'ضائع ' نہیں کرنا چاہتا۔

گیارہویں جماعت میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات کے لیے ہدایات

مرکزی داخلہ پالیسی کے تحت کراچی میں گیارہویں جماعت کے داخلوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ چوں کہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، اس لیے داخلوں کے لیے درخواستیں مکمل طور پر آن لائن جاری ہوں گی۔ یہ کام موبائل سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ جن طلبہ و طالبات کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اگرچہ ایسا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔۔وہ قریبی کالج کے سے رابطہ کریں۔ جہاں ان کا آن لائن فارم جمع کیا جائے گا۔ جس کی کوئی فیس نہیں ہوگی۔

اردو کی بیس عام غلطیاں

تصویر
            اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ اس کی حفاظت اور درست اشاعت ہماری ذمہ داری ہے ۔پاکستان کے حالیہ آئین کی دفعہ 251 اردو کی اہمیت واضح کرتی ہے ۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔ حالیہ آئین 1973ء میں نافذ ہوا تھا ۔ اب 2017ء چل رہا ہے ، مگر اب تک صحیح معنوں میں اردو زبان رائج نہ ہو سکی ۔

انگریز بچوں کو ابتدائی تعلیم کیسے دیتے ہیں؟

تصویر
جب والدین بچوں کو اسکول میں داخل کرتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی سیکھے ۔ اچھا استا د وہ ہوتا ہے ، جو بچے کی تعلیم اور تربیت دونوں پر توجہ دیتا ہے ۔ بچے کی تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے ۔ استاد کا کردار دوسرا درجہ رکھتا ہے ۔ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار بحسن و خوبی سر انجام دینا چاہیے ۔

نقل بھی ایک آرٹ ہے

جب سے ہمارے ہونہار طلبہ و طالبات کے امتحانات شروع ہوئےہیں ، اخبارات نے "پکڑے گئے" جیسے لاحقے والی خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں ۔ مثال کے طور پر،"اردو کے پرچے میں 24 طلبہ نقل کرتےہوئے پکڑے گئے " ، "حیاتیات کے پر چے میں 10 طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے" وغیرہ۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ایسی خبریں بالکل اچھی نہیں لگتیں اور اچھی لگنی بھی نہیں چاہئیں ۔ کیوں کہ ان خبروں سےہمارے ذہین ، ہو ش یار ، لائق اور ہونہار طلبہ و طالبات کی شرمندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ، مگر مستقبل کے معماروں کی ایسی بے عزتی ہر گز ۔۔ہر گز برداشت نہیں کر سکتے ۔

نقل امریکا اور بھارت میں

یقین جانیے ، اگر ہمیں امریکا اور انڈیا میں ہونے والی نقل کے بارے میں پہلے سے ہی معلوم ہوتا تو ہم پچھلے ہفتے "نقل کی روک تھام " کے عنوان سے کوئی کالم زیر ِ تحریر نہ لاتے ۔ بھارت کے طلبہ کہتے ہیں کہ نقل کرنا ان کا جمہوری ہی نہیں ، بلکہ پیدائشی حق ہے ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ، چاہے وہ انڈیا کے ہوں یا پاکستان کے۔ جب نقل کرنا بھارت کے بچوں کابنیادی حق ہے تو ہمارے بچوں کا کیوں نہیں ہے ۔ اب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟اگر  ہم اپنی  تحریروں کے ذریعےاپنے طلبہ و طالبات کو ان کے پیدائشی اور جمہوری حق سے محروم کر نے کی بات کریں  تو یہ بالکل  اچھی بات نہیں ہے ۔اس لیے ہم اپنی پچھلی تحریر سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔ در اصل امتحان کے گرم موسم میں جب ہم نے چند ہونہار بچوں کو کھیلتے دیکھا تو ہمارا خون کھول اٹھا ۔ہمارے حساس  دل میں قوم کا جذبہ تو یوں ہی موج زن ہے ۔ اس لیے  ہم نے ایک جذباتی کالم لکھ مارا ۔کیوں کہ ہمارے  لاشعور میں یہ بات رقص در رقص کر رہی تھی کہ نقل "صرف " ہمارے بچے  کرتے ہیں ۔ لیکن  جب ہمیں معلوم ہوا کہ نقل امریکا اور بھارت میں بھی کی جاتی ہےتو ہمارے لا شعور کو خیال میں ایک چ

نقل کی روک تھام

پاکستان میں تعلیمی زوال کا ایک بڑا سبب نقل کلچر ہے ۔ مجھے دیگر صوبوں کا علم نہیں ، لیکن جس طرح صوبہ ِ سندھ کے شہر کراچی میں نقل ہوتی ہے ، اس سے ہماری تعلیم کے معیار کا پول کھل جاتا ہے ۔ ان دنوں امتحانا ت کا دور دورہ ہے ۔ اسکولوں میں امتحانات ہو گئے ہیں ۔ اگلے مہینے کی ابتدا میں کراچی میں جماعت نہم اور دہم کے امتحانات شروع ہوں گے ۔ اس کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات ہوں گے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے طلبہ امتحانات سے بالکل خوف زدہ نہیں ہیں ۔ ان کے چہروں سے پریشانی ذرا بھی  نہیں جھلکتی ۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امتحانات میں نقل کر کے پاس ہو جائیں گے ۔ یہ نقل ہی ان کے کام یاب ہونے کا واحد سہارہ ہے ۔ 

اردو کا مسئلہ

پاکستانی آئین کی دفعہ 251 کے مطابق:  (1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم ِ آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے ۔  (2) انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جا سکے گی ، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔ (3) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات  تجویز کر سکے گی ۔ 

کچھ باتیں کتابوں کی

یہ بات نہایت تشویش ناک ہے کہ عموما پوری قوم اور خصوصا ہماری نوجوان نسل کتابوں سے خطرناک حد تک دور ہوتی جارہی ہے ۔ گو زمانے  نے بہت ترقی کر لی ہے  ۔ جدید انفار میشن ٹیکنا لوجی کا دود دور ہ ہے ۔ دنیا سکڑ کر عالمی گاؤں بن چکی ہے ۔ مگر میری دانست میں کتابیں اس وقت بھی علم کا سب سے بڑا منبع ہیں ۔ گویا کتابوں سے دوری علم سے دوری کے مساوی ہے ۔ ہمارے طلبہ بھی کتابوں سے بھاگتے ہیں ۔وہ صرف اپنی نصابی کتابوں تک محدود رہتےہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی معلومات جمود کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ یہ کتابوں سے دوری کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات میں تحقیق و تجسس اور شعور و آگہی جیسی حیات ِ جاوداں بخشنے والی چیزیں پروان نہیں چڑھتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آج کل کے طلبہ و طالبات علمی میدان میں کوئی بڑا کار ِ نمایاں سر انجام نہیں دے پاتے ۔